کیا ہے۔ یہی حدیث معجم طبرانی کبیر میں۔ ابوامامہ صدی بن عجلان الباہلی سے منقول ہے۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور علامہ سدی نے کہا کہ یہ منسوخ ہے۔ اﷲتعالیٰ کے اس قول سے خالدین فیہا ابداً لیکن علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں نسخ کے قول کو بھی رد کیا ہے اور اس حدیث کو غریب قرار دیا ہے۔}
اس حدیث کے متعلق جلیل القدر محدثین کا یہ فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ کے بعد اس حدیث سے استدلال کرنا کہاں تک درست ہے۔ اس بنیاد پر علماء حدیث نے اصول حدیث وضع کئے تاکہ حدیث کو سمجھنے اور اس سے استدلال اور اس سے احکام ثابت کرنے میں آسانی ہو اور غلطی واقع نہ ہو۔ ہم چاہتے ہیں یہاں چند اصول لکھ دئیے جائیں۔ تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ صاحب مراسلہ کا اس حدیث سے استدلال کر کے اسلام کے بنیادی عقیدے کو ثابت کرنا کہاں تک درست ہوسکتا ہے۔
اصول حدیث
محدثین کرام نے لکھا ہے کہ حدیث کے دو جز ہوتے ہیں۔ ایک متن حدیث دوئم سند حدیث، متن حدیث کا مطلب آنحضرتﷺ کے الفاظ ہیں اور سند حدیث کا مطلب ہے وہ سلسلہ روایت جو آنحضرتﷺ سے لے کر بعد تک کے نقل کرنے والے حضرات تک متصل ایک حدیث کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ متن اور سند دونوں درست ہوں اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ ہو۔ اگر متن میں شبہ ہے تو یہ حدیث مضطرب ہے اور اگر سند میں شبہ ہے تو یہ حدیث ضعیف ہے اور اگر متن وسند دونوں اصول حدیث کے مطابق ہوں تو یہ حدیث صحیح ہے۔ اگر صحیح حدیث کسی آیت یا حدیث متواتر یا حدیث مشہور کے معارض ہے تو آیت اور حدیث میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے تطبیق یا تاؤیل یا ترجیح یا تنسیخ کے اصول وضع کئے ہیں۔ ان اصول پر ان احادیث کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔ جو صحیح ومشہور یا متواتر حدیث کا درجہ رکھتی ہوں اور غریب حدیث یا ضعیف حدیث سے احکام کا اثبات نہیں کیا جاسکتا۔ اب آپ خود ہی غور کریں اور فیصلہ کریں یہ حدیث جس کے متعلق اوپر علماء ومحدثین کا فیصلہ گزر چکا ہے۔ اس سے اسلام کے بنیادی عقیدے پر کس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے۔قرآن پاک میں شبہ پیدا کرنے کی ناپاک جسارت
صاحب مراسلہ اپنے پہلے مراسلہ کے اختتام پر خود ایک شبہ قائم کر کے لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا۔