حدیث کا صحیح مفہوم
صاحب مراسلہ نے جو حدیث پیش کی ہے ان کے دئیے ہوئے حوالہ معالم التنزیل کے عربی نسخے میں ہمیں یہ حدیث نہیں ملی۔ اگر ان کے پاس اس کا ثبوت ہے تو پیش کریں۔ ہاں البتہ اس مفہوم کے قریب جو الفاظ ہمیں ملے وہ یہ ہیں۔
’’عن ابن مسعودؓ قال لیأتین علیٰ جہنم زمان لیس فیہا احد وذلک بعد یلبثون فیہا أحقاباً وعن ابی ہریرۃ مثلہ معناہ عند اہل السنۃ …… وثبت ان لا یبقیٰ فیہا احد من الایمان اماتواضع الکفار فممتلئۃ ابداً (معالم التنزیل ج۲ ص۱۴۱)‘‘ {ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جہنم پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی آدمی نہیں ہوگا اور یہ سینکڑوں برس کے بعد ہوگا۔ اسی قسم کی روایت ابوہریرہؓ سے منقول ہے۔ علامہ بغوی لکھتے ہیں۔ اس حدیث کا مطلب اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اہل ایمان سے کوئی جہنم میں باقی نہیں رہے گا۔ لیکن کافروں سے جہنم بھری ہوئی ہوگی۔}اصول حدیث کی ضرورت
احادیث سے استدلال کرنے کے لئے علماء حدیث نے چند اصول وضع کئے ہیں اور جب تک ان اصول حدیث کو سامنے نہ رکھا جائے اس وقت تک کسی حدیث سے استدلال کرنا غلطی ہے۔ جیسا کہ صاحب مراسلہ سے غلطی ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف علم حدیث اور اصول حدیث سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ کاش کہ اس حدیث سے استدلال کرنے سے پہلے اصول حدیث کا مطالعہ کر لیتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ اسلام کے بنیادی عقیدے کے اثبات کے لئے نص قطعی کے مقابلہ پر غریب حدیث سے استدلال کر رہے ہیں اور اسلام کے بنیادی عقیدے کی اساس اس پر قائم کر رہے ہیں۔ دیکھئے اس حدیث کے متعلق علماء ومحدثین کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ صاحب معالم تنزیل ج۴ ص۳۹۸ نے اس حدیث کے متعلق یہ لکھا ہے۔
’’وقد رؤھا فی تفسیرھا عن امیر المؤمنین عمر بن الخلطاب وابن مسعود وابن عباس وابی ہریرۃ وعبداﷲ بن عمر وجابر وابی سعید من الصحابۃ ورد فی حدیث غریب فی معجم الطبرانی الکبیر عن ابی امامۃ صدی بن عجلان الباہلی ولکن سندہ ضعیف وقال السدی ہی منسوخۃ لقولہ خالدین فیہا ابداً‘‘ {اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کے نقل کرنے والے باوجود حضرت عمرؓ وابن مسعود وابن عباس وابوہریرہؓ، ابن عمرو، جابر، ابوسعید ہیں۔ اس کی غریب میں شمار