’’عن ابن مسعودؓ قال حدثنا رسول اﷲﷺ… ان احد کم لیعمل بعمل اہل الجنۃ حتیٰ مایکون بینہ وبینہا الا ذراع فیسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اہل الجنۃ فید خلہا (مسلم ج۲ ص۳۳۲، باب القدر ص۲۰)‘‘ {حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ہم سے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ اﷲتعالیٰ ماں کے پیٹ میں چالیس روز تک رکھتے ہیں اور پھر وہ خون بن جاتا ہے۔ چالیس روز میں پھر وہ اتنی مدت میں گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے۔ پھر اﷲتعالیٰ ایک فرشتہ کو چار کلمات لے کر بھیجتے ہیں پھر وہ لکھتا ہے اس کا کام وعمر ورزق اور بدبختی یا نیک بختی۔ پھر اس میں روح پھونک دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے سواء کوئی معبود نہیں۔ تم میں سے کوئی جنت کے عمل کرتا ہے اور یہاں تک اس کے اور جنت کے درمیان چند ذراع کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر کا لکھا پورا ہوتا ہے تو وہ اچانک دوزخ کے کام کرنے لگتا ہے۔ پس وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے اور تم میں کوئی شخص دوزخ کے کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دوزخ اور اس کے درمیان چند ذراع کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر کا لکھا پورا ہوتا ہے۔ وہ جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔ پس وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔}
ہم نے یہاں طویل حدیث کا ترجمہ اس لئے نقل کیا ہے۔ تاکہ اوپر والی آیت کا مفہوم پوری طرح واضح ہو جائے۔ تفسیر کا یہ اصول ہے جب کسی آیت کی تشریح منقول ہو اور آنحضرتﷺ کا قول یا فعل موجود ہو تو پھر وہاں عقلی اور منطقی تفسیر سے کسی آیت کی تشریح کرنا جائز نہیں ہے۔ اپنے پہلے مراسلہ کے آخر میں ایک حدیث بھی اپنے دعوے کے اثبات کے لئے پیش کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ حدیث میں آتا ہے۔
غریب حدیث سے غلط استدلال
’’یأتی علیٰ جہنم زمان لیس فیہا احد ونسیم الصباح تحرک ابوابہا (معالم التنزیل)‘‘ {جہنم پر ایک زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی شخص نہیں ہوگا اور بادنسیم صبح اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی۔}
یعنی اس کے دروازے کھلے ہوں گے اور دوزخ کے اندر کوئی قیدی نہیں رہے گا۔ غرض کہ اسلامی تعلیم کے ماتحت جزائے نیک تو دائمی ہوگی۔ مگر دوزخ کا عذاب دائمی نہیں ہوگا۔ وہ بیشک بھیانک اور تکلیف دہ چیز ہے۔ بالآخر خدائے تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور وہ گنہگاروں کو بھی اپنے سایۂ رحمت میں لے آئے گی۔