مادامت السمٰوٰت والارض الا ماشاء ربک ان ربک فعال لما یرید۰ واما الذین سعد واففی الجنۃ خلدین فیہا مادامت السمٰوٰت والارض الا ماشاء ربک عطاً غیر مجذوذ (ھود:۱۰۶تا۱۰۸)‘‘ {جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ آگ میں داخل کئے جائیں گے۔ اس میں کسی وقت تو ان کے غم سے لمبے لبے سانس نکل رہے ہوں گے اور کسی وقت رو رو کر ہچکی بندھ جائے گی۔ وہ اس میں اس وقت تک رہتے چلے جائیں گے جب تک کہ آسمان وزمین قائم ہیں۔ سوائے اس کے تیرا رب اور ارادہ کرے اور تیرا رب اپنے ارادہ کو پورا کرنے والا ہے اور جو لوگ خوش نصیب ہوں گے وہ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور اس میں اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ آسمان وزمین قائم ہیں۔ سوائے اس کے تیرا رب کچھ اور چاہے مگر یہ عطاء ہوگی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔} اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے صاحب مراسلہ لکھتے ہیں:
آیت سے عجیب منطقی انداز میں استدلال
اس آیت میں دوزخیوں کے متعلق تو اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ ہم ان کو جہنم سے نکال سکتے ہیں اور ہمارے ارادہ میں کون حائل ہوسکتا ہے۔ لیکن مؤمنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ اگر چاہیں تو ان کو بھی جنت سے نکال سکتے ہیں۔ مگر ہم نے یہ یہی چاہا کہ ان کے انعام کو کبھی ختم نہ کیا جائے۔ اس مقابلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوزخ کا عذاب ایک دن ختم ہونے والا ہے۔ کیونکہ دوزخیوں کو جہنم سے نکلنے کی امید دلائی گئی ہے اور جنتیوں کو کہاگیا ہے کہ انہیں نہ ختم ہونے والے انعام سے نوازا جائے گا۔
آیت کی صحیح تفسیر
یہ طویل آیت بھی صاحب مراسلہ نے اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کی ہے۔ طرز استدلال بتارہا ہے کہ آیت میں بڑی کھینچ تان کر کے عذاب کے دائمی ہونے کی نفی پر کلام کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں اس آیت کی صحیح تفسیر کا خلاصہ لکھیں جو معالم التنزیل وروح المعانی وطبری اور بحر المحیط میں استثنیٰ کی بحث میں کی گئی ہے۔ تاکہ آیت کا صحیح مفہوم واضح ہوسکے۔ فرمایا کہ سعید وشقی سے مراد نیک کار اور بدکار لوگ مراد لئے جائیں۔ خواہ وہ مؤمن ہوں یا کافر اور ماکومن کے معنی میں لیا جائے۔ پس یہ معنی ہوئے کہ گنہگار کافر دوزخ میں ہوںگے۔ مگر جس کو اﷲتعالیٰ چاہیں یعنی اس کا خاتمہ کفر پر ہو جائے۔ پس اس سے یہ نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ اطاعت پر ناز نہ کرے اور عصیان پر مایوس نہ ہو۔ اسی مفہوم کی تائید مشکوٰۃ کی ایک روایت سے ہوتی ہے۔ جس کو بخاری ومسلم نے بھی نقل کیا ہے۔