غلط استدلال
جب اس کی رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے تو ضروری ہے کہ دوزخ بھی ایک دن اس کی رحمت کے سایہ تلے آجائے اور دوزخیوں کو اس سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے۔
صاحب مراسلہ نے آیت سے جو استدلال کیا ہے۔ اس کی بنیاد خالص قیاس ومیلان پر قائم ہے۔ اپنے ذہن کے خود ساختہ معنی آیت کے ساتھ چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وسعت رحمت کا یہ مطلب نہیں کہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو یکسر ختم کر دیا جائے اور جہنم جو اﷲ جل شانہ کی صفت قہاریت کا مظہر ہے۔ اس کے وجود ہی کو ختم کر دیاجائے۔ جب جمہور امت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ جس طرح جنت دائم الوجود ہے۔ اہل جنت کے لئے، اسی طرح جہنم بھی دائم الوجود ہے۔ اہل جہنم کافر مشرکین کے لئے، اگر وسعت رحمت کی وجہ سے اﷲتعالیٰ جہنم کو بھی ختم فرمادیں تو کافر ومشرکین کا ٹھکانہ کہاں ہوگا۔ کیا وہ بھی جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ حالانکہ یہ صراحتاً قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔
وسعت رحمت کا صحیح مفہوم
وسعت رحمت کا صحیح آسان مفہوم یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ وہ اپنے بندوں کی معمولی غلطیوں اور گناہوں پر فوری مواخذہ نہیں فرماتے بلکہ اس کو ڈھیل دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنی غلطی سے تائب ہو جائے اور جب وہ تائب ہو جاتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو معاف فرمادیتے ہیں۔ اس طرح جب یہ لوگ نافرمانی اور گناہوں میں ملوث رہتے ہیں تو اﷲ جل شانہ ان پر اپنے انعامات کا دروازہ نہیں بند کرتے۔ وہ دنیا میں نیک لوگوں کی طرح تمام نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ حالانکہ عدل وانصاف کا یہ تقاضہ تھا جب کوئی بندہ اﷲتعالیٰ کو نہ مانے اور اس کی اطاعت نہ کرے تو اﷲتعالیٰ اس کی نعمتوں کو روک سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ اﷲتعالیٰ کی رحمت وسیع ہے۔ اس لئے اس کو مہلت دی جاتی ہے۔ جب وہ تائب ہو جاتا ہے تو گزشتہ گناہوں کی سزا نہیں ملتی ہے۔ یہ ہے رحمت کا معنی اور اس وسعت رحمت کا مظاہرہ پوری فیاضی کے ساتھ قیامت کے دن ہوگا۔ یہاں تک کہ اﷲ جل شانہ ایمان کے ساتھ صرف ایک نیکی کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادیں گے۔ لیکن کافر اور مشرکین اور بے دین لوگوں کے لئے رحمت کے دروازے بند ہوںگے۔ اس لئے کہ انہوں نے دنیا میں اطاعت الٰہی اور ایمان ویقین کے دروازے اپنے اوپر بند رکھے تھے۔
۵… ’’فاما الذین شقوا ففی النار لہم فیہا زفیرو شہیق خالدین فیہا