جہنم میں ڈال بھی دیا تو وہ عارضی ہوگا اور کچھ مدت کے بعد پھر راحت وآرام کی زندگی جنت میں مل جائے گی۔ اس انداز فکر سے نیک اور بدمسلمان اور کافر میں امتیاز ختم ہوکر رہ جائے گا۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے: ’’افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون (القلم:۳۵،۳۶)‘‘ {کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کے برابر کر دیں۔ تم کو کیا ہوا تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔} کلام الٰہی کے اس فیصلہ کے بعد کیا اس کا امکان رہ جاتا ہے کہ یہ یقین کر لیا جائے کہ ایک وہ شخص ہے جو پوری زندگی یاد الٰہی اور اس کے اوامر پر عمل کرنے اور اس کے نواہی سے بچنے میں گزارتا ہے۔ ہر قدم پر اس کو مکارہ اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف وہ شخص ہے جو تمام زندگی نافرمانی اور من مانی میں گزارتا ہے۔ اچھے برے میں ذرا بھی تمیز نہیں کرتا ہے تو کیا حق تعالیٰ شانہ کی شان عدل سے یہ ممکن ہے کہ ان دونوں کو ایک مقام میں برابر کر دیں یہ تو عام آدمی سے بھی ممکن نہیں ہے۔
لغت کا غلط استعمال
صاحب مراسلہ نے لفظ امہ کو ماں کے پیٹ سے جو تشبیہ دی ہے اور قرآن میں جو نئے معنی پیدا کئے ہیں۔ اس کا ثبوت بھی ہے یا نہیں۔ حالانکہ امہ کے معنی یہ ہیں کہ جن کی نیکیاں کم ہوں گی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جہنم کو ماں کے پیٹ سے تشبیہ دینا قرآن کے مقصد کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ ماں کا پیٹ جائے قرار ہے اور راحت کی جگہ ہے اور جہنم تکلیف اور سزا کی جگہ ہے۔ دنیا میں کون عقلمند انسان ہے جو ہسپتال کو راحت وآرام کی جگہ قرار دے گا۔ اس کے بعد یہ قیاس کرنا کہ جہنم میں سزا پانے کے بعد ان میں عبد بننے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ عبد بننے کی جگہ تو دنیا تھی۔ جہاں اس کو اﷲ کی بندگی کرنا تھی۔ لیکن اس نے دنیا میں من مانی کی اور دنیا جو آخرت کی کھیتی تھی اس نے اس میں ایمان ویقین اور نیک عمل کی کاشت کاری نہیں کی اور آخرت میں جنت اور جہنم تو دارالجزاء ہے دارالتربیت نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ جہنم میں رہنے کے بعد ان میں عبد بننے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی درست نہیں ہے۔
۴… ’’عذابی اصیب بہ من اشآء ورحمتی وسعت کل شیٔ (الاعراف:۱۵۶)‘‘ {میں اپنا عذاب جس کو چاہتا ہوں پہنچاتا ہوں۔ مگر میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔}
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔