اس آیت نے کافر اور مشرکین کے اعمال کی حقیقت متعین کر دی کہ یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھے اعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ جیسا کہ بیسویں صدی کے سائنسداں ہیں راحت وآرام کی بے شمار چیزیں ایجاد کیں۔ لیکن اس کے ساتھ بندوق سے لے کر ایٹمی ہتھیار تک ایجاد کئے۔ جن سے لاکھوں انسانوں کی جانوں کو ایک آن میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہیروشیما کی تاریخ گواہ ہے۔ ایک آن میں ہزارہا انسان لقمۂ اجل بن گئے اور اب بھی ایٹمی طاقتیں لرزہ براندام ہیں کہ اگر ایٹمی جنگ شروع ہوگئی تو فریقین میں سے کسی کا بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ غرض کہ ان لوگوں نے جو کچھ محنت کی اس کا نتیجہ ان کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوگیا۔ اس سے زیادہ واضح آیت اور ہے جس میں کافروں کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دے کر ان کی بے ثباتی کی بہترین وضاحت کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’والذین کفروا اعمالہم کسراب (النور:۳۹)‘‘ {اور وہ لوگ جو کافر ہوئے ان کے اعمال کی مثال سراب۔} یعنی پانی کی مانند چمکتی ریت کے مانند ہے۔ جس طرح ریت کے ٹیلے کو استقرار نہیں ہوتا۔ بلکہ ہوا کے ساتھ اس کا وجود ختم ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے اعمال ہیں کہ اپنے وجود میں اس قدر سریع الزوال ہیں کہ دوام نہیں ہے۔ جس طرح نقش برآب ہوتا ہے ایک طرف پانی میں لکیر ڈالئے دوسری طرف فوراً ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔
’’واما من خفت موازینہ فامہ ہاویۃ (القارعۃ:۸،۹)‘‘ {جس کی نیکیاں کم ہوں گی اس کی ماں ہاویہ جہنم ہوگی۔}
صاحب مراسلہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آیت سے غلط استدلال
یعنی جس طرح بچہ رحم مادر میں ایک معین عرصہ تک رہتا ہے اور پھر اس کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔ اس طرح جب دوزخیوں کی اصلاح جہنم میں ہو جائے گی اور وہ عبد بننے کے لائق ہو جائیں گے تو اﷲتعالیٰ انہیں جہنم سے باہر لے آئے گا۔
آیت کا صحیح مفہوم
یہاں بھی سخن سازی سے کام لیاگیا ہے اور آیت کو ایک نئے مفہوم کا جامہ پہنا کر نئے انداز سے پیش کیا ہے۔ جس کے ذریعہ لوگوں کے ذہن سے جہنم کا خوف ختم ہو جائے گا۔ یا پھر بطور اقامت گاہ کے بغرض علاج کچھ عرصہ کے لئے جہنم میں داخل ہونے کا یقین کرایا جارہا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ لوگ یہ یقین کر لیں گے کہ چلو دنیا میں من مانی کر لو اور اگر اﷲتعالیٰ نے