بعد جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور اگر وہ کافر مشرکین ہیں تو وہاں ان کو ان کے نیک رفاہی کاموں کا بدلہ نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ ان کے پاس ایمان نہیں ہے اور ایمان ہی اصل مدار ہے نجات کے لئے، تو اس لئے ان کے ساتھ جدا معاملہ ہوگا۔ دنیا میں جو نیک یارفاہی کام ان لوگوں نے کئے ہیں۔ ان کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں اس کا صلہ نہیں ملے گا۔
اہل دنیا کے اعمال دنیا میں ہی بیکار ہو جائیں گے
اﷲتعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایا۔ ارشاد فرمایا: ’’من کان یرید الحیوٰۃ الدنیا وزینتہا نوف الیہم اعمالہم وہم فیہا لا یبخسون اؤلئک الذین لیس لہم فی الآخرۃ الا النار وحبط ما صنعوا فیہا وبطل ما کانوا یعلمون (ھود:۱۵،۱۶)‘‘ {جو دنیا اور اس کی زینت چاہتے ہیں ہم ان کو پورا بدلہ ان کے اعمال کا (دنیا ہی میں) دیں گے اور ان میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں صرف آگ ہی ہے اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ بے کار ہوگا اور بے اثر کر دیا جائے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔}
یہ آیت اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ اس میں کسی قسم کی تاویل کی قطعاً گنجائش نہیں ہے اور اس پر تاریخ عالم گواہ بھی ہے۔ کافر اور مشرکین اور بے دین لوگ دنیا کے ہر خطہ اور ہر دور میں رہے اور بہت سے بے دین لوگوں نے بے شمار انسانی فلاح وبہبود کے کام کئے۔ خاص طور پر یورپ کے سائنسدانوں نے ایسی راحت وآرام کی چیزیں ایجاد کیں ہیں۔ جن سے انسانیت کو قیامت تک فیض پہنچتا رہے گا۔ قرآن مجید کا وعدہ سچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے محنت کی اور انہیں اس کا صلہ اپنے مقصد میں کامیابی کی صورت میں ملا اور عزت وشہرت بھی حاصل ہوئی۔ لیکن یہ سب دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں ان کو کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ اسی مفہوم کو ایک دوسری آیت میں اس طرح اﷲتعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔
کافر اور مشرکین کے اعمال کی حقیقت ’’قل ہل ننبئکم بالاخسرین اعمالاً الذین ضل سعیہم فی الحیوٰۃ الدنیا وہم یحسبون انہم یحسنون صنعاً (الکہف:۱۰۳،۱۰۴)‘‘ {آپؐ کہہ دیں کہ کیا ہم آپ کو بتائیں کہ عمل کے اعتبار سے نقصان میں کون ہے وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں دنیا کی زندگی میں بیکار ہوگئیں۔ حالانکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یقینا انہوں نے اچھے عمل کئے ہیں۔}