اب اس کے بعد یہ کہنا کہ تمام انسانوں کو ایک دن ضرور جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ یہ دعویٰ ان ۲۱آیات میں صریح معنوی تحریف ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ صاحب مراسلہ نے اپنی تائید میں دوسری آیت اور تیسری آیت پیش کی ہے اور ان دونوں سے اپنے مؤقف کی تائید کی ہے۔
۲۲… ’’ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ ولا تظلم نفس شیئًا وان کان مثقال حبۃ من خردل أتینا بہا وکفیٰ بنا حاسبین (الانبیائ:۴۷)‘‘ {قیامت کے دن ہم ایسے تول کے سامان پیدا کریں گے جن کی وجہ سے کسی جان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور کسی کی رائی کے دانے کے برابر (نیکی یا بدی کی) ہوگی تو ہم اس کو بھی لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں۔}
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:آیت سے غلط استدلال
اب اگر کوئی شخص بدیوں کی کثرت کی وجہ سے جہنم میں چلا جائے اور پھر ابدالاباد تک اسی میں رہے تو اسے اپنی نیکیوں کا بدلہ نہیں مل سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی انسان نہیں جس نے کچھ نہ کچھ نیکی نہ کی ہو۔ پس ضروری ہے کہ اس کی سزا ایک دن ختم ہوجائے۔ تاکہ اس کی نیکیوں کی جزا بھی اسے مل جائے۔ ہمیشہ جہنم میں رہنے سے تو اسے نیکیوں کی جزا کبھی بھی نہیں ملے گی۔
آیت کا صحیح مفہوم
مذکورہ آیت سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ خودساختہ ہے۔ اس پر صریح کوئی دلیل نہیں ہے۔ آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور اس کے تمام اعمال کو خواہ نیک ہوں یا بد، میزان عدل میں رکھا جائے گا اور جس کا نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا تو وہ کامیاب قرار دیا جائے گا اور اگر برائیاں زیادہ ہوں گی تو ناکام سمجھا جائے گا۔ اس مفہوم کو قرآن پاک میں باربار دہرایا گیا ہے اور کسی نفس پر ظلم نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے ہر عمل کا بدلہ کامیابی کی صورت میں دیا جائے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی نفس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی کہ اس کے نیک اعمال کا بدلہ نہ دیا جائے۔ بلکہ جس نے اگر رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی کی ہے تو اس کو بھی اس کا پورا صلہ ملے گا۔ لیکن یہ معاملہ صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔ اگر ان کی نیکیاں زیادہ ہیں تو فوراً بخشش ہو جائے گی اور اگر برائیاں بھی ہیں تو اس کی سزا ملے گی اور اس کے