ان تینوں آیات پر غور کریں کہ عذاب کے دوام کے لئے خالدین کے ساتھ ابداً کا لفظ آیا ہے جو کہ قرینہ ہے۔ خالدین کے لئے کہ کفار ے لئے عذاب دائمی ہوگا۔
کافر اور مشرکین کے لئے انبیاء اور رسولوں کی بھی سفارش کام نہیں دے گی
اس کے علاوہ اس کا امکان ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے انبیاء علیہم السلام یا رسول اﷲﷺ کی سفارش سے اﷲتعالیٰ ان کی مغفرت فرمادیں یا رسول سے قرابت کی وجہ سے مغفرت ہو جائے۔ فرمایا اس کا بھی امکان نہیں ہے کہ کوئی رسول یا ولی اپنے کسی ایسے قرابت والے کے لئے بخشش کی سفارش کرے جو کافر ہو اور کفر ہی کی حالت میں اس کا انتقال ہو جائے۔ اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
۱۹… ’’استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفرلہم سبعین مرۃ فلن یغفر اﷲ لہم ذلک بانہم کفروا باﷲ ورسولہ واﷲ لا یہدی القوم الفسقین (توبہ:۸۰)‘‘ {آپ ان کے لئے استغفار کریں یا استغفار نہ کریں چاہے آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے بخشش چاہیں تو بھی اﷲتعالیٰ ہر گز ان کی مغفرت نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اﷲ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔}
۲۰… ’’سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفر لہم لن یغفر اﷲ لہم (منافقون:۶)‘‘ {ان کے لئے برابر ہے کہ آپ بخشش چاہیں یا بخشش نہ چاہیں۔ اﷲتعالیٰ کبھی ان کی مغفرت نہیں کرے گا۔}
ان دونوں آیتوں میں فرمایا کہ اگر رسول ان کے لئے اپنے اختیار سے استغفار بھی کریں۔ تب بھی اﷲ ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ اس لئے کہ ان کا جرم اتنا بڑا ہے جس کی معافی نہیں ہوسکتی ہے۔
۲۱… ’’ماکان للنبی والذین اٰمنوان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی القربٰی من بعد ما تبین لہم انہم اصحب الجحیم (توبہ:۱۱۳)‘‘ {نبی اور ایمان والوں کے لئے تو یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت طلب کریں۔ اگرچہ وہ قریب ہی کے رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ جب کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ لوگ جہنم کے مستحق ہیں۔}
دیکھئے اس آیت میں یہاں تک منع کر دیا کہ اگر کسی نبی یا رسول کے قریبی رشتہ دار کافر یا مشرک ہوں تو ان کے لئے دعا مغفرت کرنا جائز نہیں ہے تو جب بخشش کے تمام راستے ختم کر دئیے تو اب ان کی مغفرت کی امید نہیں کی جاسکتی۔