استعمال سمجھا جاتا ہے اور جب یہی الفاظ اہل جہنم کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں تو یہاں تاویل کر کے مدۃ طویلہ مراد لئے جاتے ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ مخلد کے معنی مدۃ طویلہ کے ہیں تو پھر قرآن پاک کی مذکورہ آیات کا کیا جواب ہوگا۔ جو مخلد کے بغیر جہنم کے دائمی ہونے پر نص قطعی ہیں۔ نمبر۱ سے لے کر ۱۵ تک آپ غور کریں ان تمام آیات میں خالدین یا ابداً یا مخلداً کے بغیر عذاب اور جہنم کے دائمی ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ اس کا انکار کوئی اہل علم نہیں کر سکتا۔ یہ چند آیات ہم نے ادنیٰ تأمل سے لکھی ہیں۔ ورنہ غور کرنے سے اور بھی بہت سی آیات ہمارے مؤقف کی تائید میں مل سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ہم یہاں چند ایسی بھی آیات لکھتے ہیں جن میں خالدین کے ساتھ ابداً کا بھی اضافہ ہے اور علماء لغت نے یہ بات لکھی ہے کہ خالدین کا لفظ ابدیت کے مفہوم میں صریح نہیں ہے۔ جب تک اس کے ساتھ کوئی قرینہ قائم نہ ہو جو دوام کے معنی کی تخصیص کر دے اور جب خالدین کے ساتھ ابداً کا لفظ شامل ہو جاتا ہے تو خلود کے معنی کے لئے قرینہ بن جاتا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں جہاں خالدین کے ساتھ ابداً کا لفظ آیا ہے وہاں صرف کفار کا بیان ہے اور جہاں صرف خالدین کا لفظ ہے وہاں گنہگار ایمان والوں کا ذکر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے مؤمن اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد ایک وقت ضرور جہنم سے نکال لئے جائیں گے۔
۱۶… ’’ومن یعص اﷲ ورسولہ فان لہ نار جہنم خالدین فیہا ابداً (الجن:۲۳)‘‘ {اور جو اﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا۔ پس اس کے لئے جہنم کی آگ ہے۔ وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔}
۱۷… ’’ان الذین کفروا وظلموا لم یکن اﷲ لیغفرلہم ولا لیہدیہم طریقاً الا طریق جہنم خالدین فیہا ابداً (النسائ:۱۶۸،۱۶۹)‘‘ {بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا۔ اﷲ ان کی مغفرت نہیں کریں گے اور نہ ان کو ہدایت کا راستہ دکھائیں گے۔ سوائے اس کے کہ ان کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا وہ اس میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔}
کافروں پر اﷲ کی لعنت ہوتی ہے
۱۸… ’’ان اﷲ لعن الکافرین واعدلہم سعیراً خالدین فیہا ابداً (احزاب:۶۴،۶۵)‘‘ {بیشک اﷲ نے کافروں پر لعنت کی اور ان کے لئے آگ تیار کی ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔}