عنہم من عذابہا (فاطر:۳۶)‘‘ {اور جو لوگ کافر ہوئے جہنم کی آگ ان کے لئے ہے۔ ان کا نہ تو فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ سزا میں کچھ کمی ہو گی۔}
نمبر۶سے۱۵ تک تمام آیات پر غور کریں کہ کس قدر واضح اور مثبت انداز سے جہنم اور عذاب جہنم کے دائمی ہونے کے لئے نص قطعی ہیں۔ نمبر۱۵ میں یہ بھی واضح کر دیا کہ جہنم میں موت بھی نہیں آئے گی اور جنت کے لئے کبھی فیصلہ بھی نہیں ہوگا۔ بلکہ ابدالآباد تک اسی عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اس آیت میں ایک اور نکتہ کی جانب اشارہ ہے کہ جب انسان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو وہ موت کی تمنا کرتا ہے۔ تاکہ ان مصائب سے نجات مل جائے۔ فرمایا جہنم میں یہ نہیں ہوگا۔ بلکہ مصائب کے ساتھ جہنم کا عذاب چکھنا ہوگا۔ اب تک ہم نے جو آیات لکھی ہیں وہ سب الفاظ ومعانی کے اعتبار سے قطعی الثبوت ہیں اور ان میں خالدین وغیرہ کے الفاظ بھی نہیں ہیں۔ جن میں تاویل کی گنجائش ہو۔ جیسا کہ صاحب مراسلہ نے لکھا ہے۔
الفاظ قرآن کی معنوی تحریف
اکثر جس لفظ سے دھوکہ لگا ہے وہ لفظ خلود ہے۔ جو جنتیوں اور جہنمیوں کے لئے قرآن مجید میں ایک ساتھ استعمال کیاگیا ہے اور اس کے معنی ہیں۔ لمبے عرصہ تک رہنا اور استعارۃً ہمیشہ رہنے کا مفہوم لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد (مفردات راغب ص۱۵۴) سے استدلال کرتے ہوئے خود یہ عبارت نقل کی ہے۔ ’’اصل المخلد الذی یبقیٰ مدۃ طویلۃ ثم استعیر للمبقیٰ دائماً‘‘ مخلد کے اصل معنی طویل مدت کے آتے ہیں۔ ثم دائمی معنی کے لئے مستعار لیاگیا۔
خالدین کے صحیح معنی اور لغوی دلیل
یہ عبارت ہمارے مؤقف کی تائید کر رہی ہے کہ مخلد کے اب جو معنی مستعمل ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لئے ہیں اور مدۃ طویلہ کے معنی کثیر الاستعمال نہیں رہے۔ لغت کا یہ اصول ہے جب کوئی مشترک لفظ مستعار معنی میں کثیر الاستعمال ہو جائے تو پہلے معنی یا تو قلیل الاستعمال سمجھے جاتے ہیں یا وہ لفظ متروک عنہ کے درجہ میں داخل سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح لفظ عین یا لفظ صلوٰۃ ہے۔ اس اصول پر امام راغب نے مخلدا کے معنی مبقیٰ دائما کر کے یہ بتایا ہے کہ اب یہ لفظ ہمیشہ کے معنی میں استعمال ہوگا اور اس پر نص صریح قرینہ بھی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ خالدین و مخلدا و ابداً یہ الفاظ جب اہل جنت کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو ہمیشہ کے معنی میں ان کا