کلما کا لفظ لغت میں استمرار اور دوام کے لئے آتا ہے۔ اس معنی میں کبھی بھی انقطاع نہیں ہوتا اور پھر اس دوام میں اعید والے مزید تاکید پیدا کردی کہ جب بھی کافر جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو ان کو لوٹا دیا جائے گا۔
۴… ’’وماہم بخارجین من النار (البقرہ:۱۶۷)‘‘ {اور وہ نکلنے والے نہیں ہیں آگ سے۔}
اس آیت میں ماحرف نافیہ ہے اور اس نفی میں کسی خاص مدت کی قید نہیں ہے۔ بلکہ مطلق فرمایا کافر کبھی بھی جہنم سے نہیں نکالے جائیں گے۔
عذاب کے دوام کے لئے اہل جہنم کے جسموں کو باربار تبدیل کیاجائے گا
۵… ’’کلما نضجت جلودہم بدلناہم جلودا غیرہا لیذوقوا العذاب (النسائ:۵۶)‘‘ {جب بھی ان کی کھال جل کر پک جائے گی ہم ان کی کھال کو دوبارہ بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں۔}
اس آیت میں اس کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ کافر اور مشرکین کے جسم اگر جل جائیں گے تو ان کو دوبارہ صحیح کر کے عذاب کو جاری رکھا جائے گا۔ اگر وقتی طور پر ان کو جہنم میں رکھا جاتا تو باربار ان کے جسم کی کھال کو کیوں تبدیل کیا۔ یہ اس کا کھلا ثبوت ہے کہ عذاب دائمی ہوگا اور کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔
۶… ’’قالوا ان اﷲ حرمہما علی الکفرین الذین اتخذوا دینہم لہواً والعباًد وغرتہم الحیوۃ الدنیا فالیوم ننساہم کما نسوا لقاء یومہم ہذا (الاعراف:۵۰،۵۱)‘‘ {کہیں گے اہل جنت (جہنم والوں کے جواب میں) بیشک اﷲتعالیٰ نے دونوں کو (یعنی پانی اور رزق کو) حرام کر دیا ہے کافروں پر۔ جنہوں نے اپنے دین کو لہو ولعب بنایا اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا۔ پس آج کے دن ہم ان کو بھلاتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے آج کی دن کی ملاقات کو (دنیا میں) بھلا دیا تھا۔}
۷… ’’یریدون ان یخرجوا من النار وماہم بخٰرجین منہا ولہم عذاب مقیم (المائدہ:۳۷)‘‘ {وہ جہنم سے نکلنا چاہیں گے۔ لیکن وہ اس سے نہ نکل سکیں گے اور ان کے لئے قائم رہنے والا عذاب ہوگا۔}
اہل جہنم پر موت کبھی نہیں آئے گی
۸… ’’ونادوا یمٰلک لیقض علینا ربک قال انکم مکثون (زخرف:۷۷)‘‘