(النسائ:۴۸)‘‘ {بلاشبہ اﷲتعالیٰ نہیں بخشیں گے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور بخش دیں گے اس کے علاوہ جس کو چاہیں گے۔}
شرک کی مغفرت نہیں
اس آیت میں عربی قواعد کے اعتبار سے بڑی تاکید ہے اور اس کے مختلف پہلو ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں لاحرف نفی ہے۔ جس کے معنی میں مطلقا نفی ہوتی ہیں اور اثبات کا پہلو نہیں ہوتا ہے۔ اگر اس نفی کو اثبات میں تبدیل کر کے یہ کہا جائے کہ کچھ عرصہ بعد ان کے عذاب کو ختم کر دیا جائے گا اور اﷲتعالیٰ انکو بھی معاف کر دیں گے۔ تاکہ تخلیق انسانی کا مقصد پورا ہو جائے تو یہ قرآن پاک میں معنوی تحریف ہے۔ جس کا ارتکاب ایک مسلمان نہیں کر سکتا۔ مزید یہ بھی قابل غور ہے کہ آیت میں واوحرف عطف کے ساتھ دوسرا جملہ ویغفر میں خود اس بات کی تصریح ہے کہ آیت کے پہلے جز میں جن لوگوں کا ذکر ہے۔ ان کی مغفرت نہیں ہوگی اور دوسرے جز میں جو لوگ ہیں ان کی مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے اور اگر پہلے جز والے اہل شرک کی مغفرت کا امکان ہوتا تو اﷲ جل شانہ آیت کا دوسرا جز ذکر نہ فرماتے۔
۲… ’’اؤلئک جزاؤہم ان علیہم لعنۃ اﷲ والملئکۃ والناس اجمعین خلدین فیہا لا یخفف عنہم العذاب ولاہم ینظرون (آل عمران: ۸۷،۸۸)‘‘ {ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے اﷲ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی اور سب کی۔ ہمیشہ رہیں گے اس میں ان سے عذاب ہلکا نہیں ہوگا اور نہ ان کو شفقت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔}
اس آیت میں کافر اور مشرکین کے لئے دائمی عذاب پر کس قدر تاکید ہے۔ اوّل خالدین فرمایا اس کے معنی ہمیشہ کے آتے ہیں۔ جس میں لغت کے اعتبار سے انقطاع نہیں ہوتا۔ دوسرے لا یخفف فرمایا۔ جس کے معنی میں اور تاکید ہے کہ ختم تو کیا بلکہ اس عذاب میں کمی بھی نہیں ہوگی اور اگر وہ اﷲتعالیٰ کے حضور میں رحم کی اپیل بھی کریں گے تو بھی ان کو قابل رحم نہیں سمجھا جائے گا۔
۳… ’’کلما ارادوا ان یخرجوا منہا من غم اعیدوا فیہا وذوقوا عذاب الحریق (الحج:۳۲)‘‘ {جب وہ ارادہ کریں گے نکلنے کا اس غم سے دوبارہ اس میں لوٹا دئیے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلانے والا عذاب چکھو۔}اہل جہنم کافر ومشرکین کو دوبارہ جہنم میں لوٹا دیا جائے گا
یہ آیت خلود نار کے لئے نص قطعی ہے اور استمرار عذاب کے لئے واضح دلیل ہے۔