یعنی اگر خدا کو چاہتے ہو تو دنیوی عیش وعشرت کو دل سے نکال دو۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ؎
ماازیں دنیا جز دونان خشکے وکوزہ آبے نمی خواہم
کہ میں عیش وعشرت کا خواہاں نہیں۔ صرف زندگی گزارنے کے لئے صرف دو سوکھی روٹی اور ایک گلاس پانی چاہتا ہوں۔ (آئینہ کمالات اسلام)
مگر اس کے برعکس ہم قادیانی حدیث سیرۃ المہدی سے جسے مرزاقادیانی کے ہونہار فرزند میاں بشیر احمد ایم۔اے نے لکھا ہے۔ اس سے چند نمونے مرزاقادیانی کی عیش وعشرت کے نقل کر کے فیصلہ ناظرین کے ذمہ چھوڑتے ہیں:
۱… ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ حضرت (مرزاقادیانی) اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند فرماتے تھے۔ کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھاتے تھے اور سالم مرغ کا گوشت بھی (مسلم) پسند تھا… گوشت کی خوب بھنی ہوئی بوٹیاں بھی مرغوب تھیں۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۸۱، روایت نمبر۱۶۷)
۲… ’’مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۲، روایت نمبر۴۴۴)
۳… ’’مرغ کا گوشت ہر طرح آپ کھالیتے تھے۔ سالن ہو یا بھنا ہوا کباب ہو یا پلاؤ۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۲، روایت نمبر۴۴۴)
۴… ’’پلاؤ بھی آپ کھا لیتے تھے۔مگر ہمیشہ نرم، گداز اور گلے ہوئے چاولوں کا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۲، روایت نمبر۴۴۴)
۵… ’’میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوا لیا کرتے تھے۔ مگر گڑ کے اور دہی آپ کو پسند تھی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۲، روایت نمبر۴۴۴)
(شاید ذیابیطس شکری کو مفید ہوں گے)
۶… ’’عمدہ کھانے یعنی کباب، مرغ، پلاؤ یا انڈے اور اسی طرح فیرنی میٹھے چاول وغیرہ۔ تب ہی آپ کہہ کر پکوایا کرتے تھے۔ جب ضعف معلوم ہوتا تھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۲، روایت نمبر۴۴۴)
(مگر مرزاقادیانی تو دائم المریض تھے)