استدلال کے لئے آیت میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔ ہاں البتہ دائمی عذاب ان لوگوں کے لئے بتایا گیا ہے۔ جن کا کفر پر انتقال ہوا ہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشا دہے۔
دائمی عذاب کے مستحق لوگ
۱… ’’ان الذین کفروا من اہل الکتاب والمشرکین فی نار جہنم خالدین فیہا اولئک ہم شر البریہ (ابینہ:۶)‘‘ {بے شک اہل کتاب میں سے جو لوگ کافر ہوئے اور مشرک ہوئے وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بدترین مخلوق ہیں۔ (زمین پر بسنے والوں میں سے)}
روئے زمین پر بدترین مخلوق
اس آیت سے یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ زمین پر یہ بدترین مخلوق کون ہے اور کن لوگوں کے لئے دائمی عذاب ہوگا۔ اس کے مقابلہ پر صرف ترک عبادت پر دائمی عذاب کا نتیجہ نکال کر مغالطہ دینا یہ دین میں تحریف معنوی کے مترادف ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اگر وہ دائمی عذاب میں رہیں گے تو یہ انسانی پیدائش کے مقصد کے خلاف ہے۔ زیر بحث آیت سے یہ مطلب اخذ کرنا یہ روح قرآن سے ناواقفیت کی بناء پر ہے۔ پورے قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے۔ جس سے صرف ترک عبادت پر دائمی عذاب کی خبر دی گئی ہو۔ دائمی عذاب تو صرف کافر اور مشرک لوگوں کے لئے ہوگا اور بنی نوع انسان میں اگر کچھ افراد اپنے کفر وشرک کی وجہ سے دائمی طور پر جہنم میں ڈال دئیے بھی جائیں تو اس سے تخلیق انسانی سے عبادت کے مقصد میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس لئے تخلیق انسانی کے مقصد عبادت کے خلاف تو اس وقت ہوتا۔ جب کہ تمام نوع انسانی کے افراد کو دائمی طور پر جہنم میں ڈال دیا جاتا۔ حالانکہ بنی نوع انسان کی کثیر تعداد نفس ایمان کی بنیاد پر ضرور جنت میں داخل ہو گی۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے ایمان کے بعد اﷲ کی عبادت کی تھی۔
کافر اور مشرکین کے دائمی عذاب کے ثبوت کے لئے بہت سی آیات اور احادیث ہیں۔ جو اپنے معنی میں نص قطعی ہیں اور ان میں کسی قسم کے شک وشبہ یا تاویل وتوجیہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم یہاںچند ایسی آیات اور احادیث ذکر کرتے ہیں۔ جن میں عقل وقیاس یا لغت کے اعتبار سے کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔
۱… ’’ان اﷲ لا یغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء