اصول دین کے خلاف نہ ہو اور آنحضرتﷺ اور صحابہ سے اس سلسلہ میں کچھ منقول نہ ہو۔ صاحب مراسلہ نے اپنے دعوے کو آیات اور احادیث سے ثابت کرنے میں ان اصول کی بالکل رعایت نہیں کی ہے۔ بلکہ آیت سے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے اپنی رائے اور قیاس ومیلان کو مقدم رکھا ہے۔ چنانچہ اپنے مراسلہ کی ابتداء کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریٰت:۵۶)‘‘ {میں نے جن وانس کو صرف اس غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں۔}
آیت سے غلط استدلال
جب انسان کو پیدا ہی اس غرض کے لئے کیاگیا ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کا عبد بنے تو اگر وہ دائمی طور پر دوزخ میں ہی رکھا جائے تو وہ اس غرض کو پورا نہیں کر سکتا اور پیدائش عالم کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں نے جن وانس کو اس لئے پیدا کیاہے کہ وہ میرے عبد بنیں۔ لیکن یہ تسلیم کیا جائے کہ ایک طبقہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا اور کبھی اس سے باہر نہیں نکلے گا۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیاگیا تھا وہ غرض پوری نہیں ہوئی اور نعوذ باﷲ خدا بھی اپنے ارادے ومقصد میں کامیاب نہ ہوگا۔
آیت کا صحیح مفہوم
صاحب مراسلہ نے اپنے دعوے کے اثبات کے لئے جو آیت پیش کرکے اس سے استدلال کیا ہے۔ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ آیت کا مختصر صحیح مفہوم یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اپنے خاص نظام تشریعی کے تحت تمام جن وانس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا نہیں کرتا ہے تو یہ مجرم سمجھا جائے گا۔ اسلامی نظآم کے تحت اس پر سزا دی جائے گی اور مزید آخرت میں بھی اس کو عذاب ہوگا۔ اگر وہ دنیا میں تائب ہو جاتا ہے تو سزا ختم ہو جائے گی اور اگر آخر وقت تک توبہ پر قائم رہتا ہے تو آخرت میں بھی سزا معاف ہو جائے گی۔ ورنہ محدود وقت تک سزا دے کر اﷲ اس کے گناہ کو معاف فرمادیں گے اور جنت میں داخل کر دیں گے۔ یہ معاملہ صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوگا اور جو لوگ کفر کی حالت میں انتقال کریں گے ان کو ابتداء ہی سے دائمی طور پر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ زیر بحث آیت میں صرف اہل ایمان کو یہ خطاب ہے۔ اس لئے ایمان کے بعد ہی وہ عبادت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایمان کے ہوتے ہوئے وہ دائمی طور پر عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اس غلط