کوئی آیت یا حکم بظاہر اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس میں غلط تاویل کر کے اس آیت کی حقیقت کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس طرح قرآن ایسے لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ نہیں بنتا ہے۔ قرآن پاک میں اسی حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’یضل بہ کثیراً ویہدی بہ کثیراً وما یضل بہ الا الفٰسقین (البقرۃ:۲۶)‘‘ {اس سے (یعنی قرآن سے) بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور بہت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور اس سے نافرمان لوگ ہی گمراہ ہوتے ہیں۔}
اس آیت نے فیصلہ کر دیا کہ نافرمان کون ہیں؟ جو لوگ قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس سے ان کو ہدایت نہیں ملتی ہے۔ دوسری اصل یہ لکھی ہے کہ قرآن پاک سمجھنے میں اپنی عقل کو قرآن پاک کے تابع بنائے۔ اگر کسی آیت کے معنی اس کی سمجھ میں نہیں آتے ہیں تو اس کو اپنی عقل وسمجھ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرے۔ بلکہ اس آیت کے جو بھی معنی ہیں اس پر ایمان لے آئے۔ اسی طریقہ کو اﷲتعالیٰ نے پسند فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ (آل عمران:۷)‘‘ {اور جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے۔}
قرآن پاک میں کچھ آیات محکمات ہیں اور کچھ متشابہات ہیں۔ محکمات وہ آیات ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے آسان ہے اور متشابہات وہ آیات ہیں جن تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ آیات اﷲتعالیٰ نے اہل علم اور عقل کے پرستار لوگوں کی آزمائش کے لئے نازل کی ہیں۔ تاکہ یہ لوگ اﷲ جل شانہ کے علم کے مقابلہ پر اپنے عجزوانکسار کا اعتراف کریں۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے۔ وہ ایسی آیات میں غور کر کے ہدایت سے ہٹ جاتے ہیں۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ کلام الٰہی کو سمجھنے کے لئے اگر انسانی عقل ہی کافی ہوتی تو پھر انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کتاب کے ساتھ رسول کا آنا اس بات کی کھلی دلیل تھی کہ قرآن پاک بغیر رسول کے مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آسکتا اور انبیاء اور رسولوں کو اﷲتعالیٰ نے یہ منصب اس لئے عطاء فرمایا کہ ان حضرات کی ہمہ وقت مدد تائید الٰہی اور وحی الٰہی سے کی جاتی ہے۔ اس بنیاد پر ان حضرات کا ہر فیصلہ اور ہر بات حق پر مبنی ہوتی ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر علماء تفسیر نے یہ اصل وضع کی ہے کہ قرآن پاک کی تفسیر کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تفسیر بالنقل کی جائے اور تفسیر بالرائے کو اس وقت اختیار کرے۔ جب کہ وہ