مرزاقادیانی کی انہی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے جو اسلام کے خلاف عرصۂ دراز سے مسلمانوں میں زہر گھول رہی تھیں۔ علماء اسلام نے ان کا ہر طرح اور ہر موڑ پر مقابلہ کیا اور ان کے باطل عقائد کو مسلمانوں کے سامنے طشت ازبام کیا۔ یہاں تک کہ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کا وہ مبارک دن آیا۔ جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے تاریخ ساز فیصلہ کیا اور اس فرقہ کو عالم اسلام کی برادری سے خارج کر کے ان پر کفر کی ابدی مہر ثبت کر دی۔ اسی طرح اس مملکت خداداد پاکستان میں ۲۶سال بعد پہلی بار ختم نبوت کو دستوری تحفظ حاصل ہوا۔ اگرچہ اس تاریخ ساز فیصلہ کا سہرا وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے سررہا۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ دستوری کامیابی دراصل اس ۹۰سالہ زبردست جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ جس کے لئے علماء کرام نے تن ومن کی بازی لگائی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تقریباً لاکھوں صفحات پر مشتمل لٹریچر شائع ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں فدایان ختم نبوت نے جام شہادت نوش کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عاشقان رسول نے قید وبند کی مشکلات برداشت کیں اور مخیر اور مخلص حضرات نے بے حساب دولت ختم نبوت کے تحفظ پر نثار کی۔ پاکستان کے قیام کا منشاء بھی یہی تھا کہ یہاں کتاب وسنت کا نظام قائم ہو۔ اسی عظیم مقصد کے لئے یہ مملکت خداداد رمضان مبارک کی ۲۷ویں شب شب قدر میں دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوئی۔ یہ ایسی مبارک ساعت کی برکت کا نتیجہ تھا کہ پاکستانی قوم نے دو مرتبہ فقید المثال اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ ایک وطن کا دفاع جو ۶؍ستمبر ۱۹۶۵ء میں کیا۔ دوسرا ختم نبوت کا دفاع جو اسی ماہ ستمبر کی ۷؍تاریخ ۱۹۷۴ء میں ہوا۔ ان دونوں موقعوں پر پوری قوم نے جس اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا۔ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ہے۔
جس وقت پوری قوم ختم نبوت کے تحفظ میں برسر پیکار تھی۔ اس وقت قوم کا ہرفرد اپنے اپنے انداز سے اس فرقہ کے گمراہ عقائد کو قوم کے سامنے طشت ازبام کر رہا تھا۔ تو اس وقت اس جہاد کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ہم نے یہ تحریری مناظرہ جو ربوہ مرکز سے ہمارے درمیان ہوا تھا اس کو شائع کر رہے ہیں۔ تاکہ عام مسلمانوں کو یہ اندازہ ہوسکے کہ اس گمراہ فرقہ نے نہ صرف ختم نبوت کا انکار کیا۔ بلکہ اسلام کے بنیادی اصول میں تحریف کر کے اسلام کے خلاف ایک نیا دین قائم کر دیا۔
پہلا مراسلہ
صاحب مراسلہ نے ’’عذاب جہنم دائمی نہیں ہے‘‘ کے زیرعنوان چند آیات اور ایک