بنے اور ساری قومیں باہم شیروشکر ہوکر رہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
یہ واضح رہے کہ حسب حال اور حسب موقع ان کے ہاں خواب گھڑے جاتے ہیں اور ایسے ہی خوابوں پر جھوٹی نبوت کی تعمیر اٹھتی ہے۔ محمدی بیگم کے نکاح کے خواب کی طرح یہ خواب بھی شرمندۂ تعمیر نہ ہوسکا۔
۲… ’’میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اﷲتعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن قوموں کی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی کرنا پڑے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کس طرح جلد متحد ہو جائیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۴۷ئ)
اور یہ حقیقت باخبر حضرات سے مخفی نہیں کہ ان کی بدنیتی اور سازش کی بناء پر گورداسپور کا ضلع پاکستان سے کٹ کر ہندوستان میں شامل کر دیا گیا اور اس طرح کشمیر ہڑپ کرنے کے لئے بھارت کو بہترین موقع ہاتھ آگیا۔ کتنا احسان ہے قادیانیوں کا امت مسلمہ پر۔
اکھنڈ بھارت کے لئے خواب دیکھنے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے کے باوجود اس امت کو پاکستان کے اہم اور ذمہ دار مناصب پر متعین کیاگیا اور ان کی وفاداری وخدمت گزاری۔ شک وشبہ سے بالاتر سمجھی گئی اور جو لوگ خلوص دل سے پاکستان میں اسلامی نظام لانے کے حامی اور اس کے حقیقی استحکام وسلامتی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں اسلامی نظام لانے کے حامی اور اس کے حقیقی استحکام وسلامتی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے مخالف سمجھے جاتے ہیں اور اسی قماش کے لوگ ان کے خلاف طرح طرح کے افتراء کی آندھیاں اٹھاتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کی فہرست خفیہ طور پر انگریزوں کو پہنچایا کرتے تھے۔ آج اسلامی نظام کے لئے متحرک لوگوں کے خلاف جاسوسی اور نفرت پھیلانے کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
مرزائیوں کی تمام سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود جب پاکستان بن گیا تو پھر ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا کہ اپنا پروگرام متحدہ ہندوستان بنانے سے پہلے اپنے لئے ایک صوبہ منتخب کر کے اس میں آزادی سے اتنی قوت فراہم کر لیں۔ جو اصل پروگرام (اکھنڈ بھارت) کے لئے راستے آسان بنادے۔ مندرجہ ذیل بیان قابل غور ہے۔ جس میں صوبہ بلوچستان کا انتخاب کیاجاتا ہے۔
’’بلوچستان کی کل آبادی ۵یا۶لاکھ ہے۔ زیادہ آبادی کو احمدی بنانا مشکل ہے۔ لیکن