وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘
(اخبار بدر قادیان، تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
مرزاقادیانی نے پیش گوئی کی تھی کہ سچے کی زندگی میں جھوٹے پر طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں حملہ آور ہوں گی اور اس کی موت انہیں سے ہوگی۔ اس معیار کے مطابق سچے (مولانا ثناء اﷲ مرحوم) کی زندگی میں مرزاقادیانی (جھوٹا نبی) اپنی منتخب کردہ مرض ہیضہ کے ذریعے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بمقام لاہور فوت ہوا اور مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ مورخہ ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء بمقام سرگودھا ٹھیک چالیس سال بعد فوت ہوئے۔ لیکن اس قسم کی تک بازیوں کے باوجود قادیانی امت کی انکھیں کھلتی نہیں ہیں اور چہرۂ حقیقت ان کے دماغ میں سما نہیں رہا۔
یہ ہے صحیح تصویر جھوٹی نبوت کی، خود اس کے اپنے لٹریچر کے آئینہ میں مرزاقادیانی کی زندگی کے تمام شعبوں پر سیر حاصل بحث بے سود بھی ہے اور بہت طویل بھی۔ اس مختصر مقالے میں اس کے وہ چند نمایاں خدوخال واضح کئے گئے ہیں۔ جن کی بناء سچ اور جھوٹ بالکل واضح نظر آتا ہے۔ ایک مسلمان کے اطمینان کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ خدا ورسول نے ختم نبوت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ آپ کی پیش گوئی کے مطابق کذاب، افتراء پرداز اور ملعون ہوگا۔ پھر اس کی کرامات پیش گوئیوں اور دعوؤں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔ جن پر توجہ دینا بھی کفر ہے اور ختم نبوت کے عقیدہ میں شگاف پیدا کرنے کا باعث ہے۔ لیکن کفر وارتداد سے بچانے کے لئے عوام کے سامنے جھوٹی نبوت کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
ختم نبوت اﷲ کی رحمت ہے
امت مسلمہ کی وحدت اور مسلم معاشرے کی یگانگت واستحکام کے لئے ایک نبی کی پیروی پر تمام مسلمانوں کو اکٹھا کردینا اﷲتعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے اور یہ وہ عظیم نعمت ہے جو صرف آنحضورﷺ کے ذریعہ ہمیں میسر ہوئی۔
ویسے تو آنحضورﷺ نوع انسانی کے لئے ہر لحاظ سے ہی مجسم رحمت بن کر آئے ہیں۔ لیکن خاتم النبیین کی حیثیت سے آپ کی رحمت کے فیضان کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں ایک شخص نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے فکرواعتقاد میں کتنا بڑا انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اپنی ایک الگ امت بنائی اور نہ ماننے والوں کو کافر قرار دے دیا۔ ان کے ساتھ سماجی بائیکاٹ کا اعلان کیاگیا اور صاف کہہ دیا کہ ان مسلمانوں کا اسلام، خدا، رسول وغیرہ سب کچھ ہم سے الگ ہے۔ ان کے سیاسی حقوق ہم سے الگ ہیں اور معاشرے میں ان کی حیثیت