منکرین نبوت کی ہے۔ اسی طرح کئی نبوتیں اگر کسی ملک اور کسی دور میں بیک وقت ظہور نما ہو جائیں اور ہر ایک نبی کی اپنی الگ امت ہو۔ ہر ایک کے ہاں قانون وہدایت کے ماخذ اور وفاداری واطاعت کے مرکز مختلف ہوں۔ پھر ہر نبوت کے تسلیم وانکار پر اسلام کا تیا پانچہ شروع ہو جائے۔ تو یہاں اسلام کس کے ہاں ملے گا۔ امت مسلمہ کی مرکزیت اور اس کا اتحاد واستحکام کہاں رہے گا۔ نئی امتیں، نئے نبی، نئے مرکز ہدایت اور ہر دور میں کئی بار ادلتی بدلتی شریعت، فکری انتشار اور عملی گمراہی کو کون روک سکتا ہے۔
لیکن خدا ورسول نے اس فتنہ سے پیشگی مطلع فرماکر قیامت تک امت کے ایمان کو محفوظ کر دیا اور واضح کر دیا کہ اب اس کے بعد سلسلۂ انبیاء ختم کر دیا گیا ہے۔ تمہاری ہدایت اور نجات کے لئے یہی آخری دین، یہی کتاب اور یہی آخری لیکن کامل رسول ہے۔ جو قیامت تک کے دور پر حاوی ہے۔ اب آئندہ جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ فریب کار اور کذاب ہوگا اور یہ کارگاہ عالم قرآن وسنت کی موجودگی میں جھوٹے نبیوںکی تکفیر وارتداد کی شکار گاہ نہیں بن سکے گا اور آئندہ نئے رسولوں کے انتظار سے امت کو سبک ذہن کردیا گیا۔ ورنہ ہر نیا نبی اپنے سے پہلی امتوں کو کافر قرار دے کر اپنے کام کا آغاز کرتا اور نبوت کا دروازہ کھلنے کے بعد یہ سلسلہ قیامت تک رک نہیں سکتا۔ یہ آنحضورﷺ کی ختم نبوت ہی کی کرامت ہے کہ آپﷺ کے بعد جس نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ اپنے پیروکاروں سمیت اسلامی معاشرے میں پھٹکار کا مستحق ہوا اور ایمانی فراست ان کے منحوس چہروں کو پہچان لینے میں دھوکا نہیں کھا سکتی اور علمائے امت نے ہر دور میں ایسے فتنہ گروں کو بے نقاب کیا ہے۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کو دماغی عدم توازن، فکری اختلال اور ان کا علمی عملی اور اخلاقی افلاس خود ہی ان کے چہرے کا طمانچہ بنا۔ جھوٹ اور تضاد نے ان کے تاریخی چہرے پر سیاہی انڈیل دی۔ اس فکر وکردار کے لوگوں نے ہمیشہ مسلمانوں سے غداری اور باطل سے وفاداری کی۔ کھلم کھلا کافروں کے مقابلہ میں ایسے نقاب پوش غیرمسلم ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ خدا اور رسول پر جھوٹ بہتان باندھنے والوں سے مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہئے۔ مرزاقادیانی کے دعوے ان کی تحریریں اور ان کے کلام کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ختم نبوت کی مہر توڑنے والوں کی علمی، فکری اور اخلاقی سطح کس حد تک پست ہوتی ہے۔ وحی والہام کے نام سے پیش کردہ کلام کی ژولیدگی وپستی، اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ مصنف کی یہ تصنیف جھوٹ، غیر مربوط اور مضحکہ خیز دعوؤں کا پلندہ ہے۔ جسے سزا کے طور پر کسی کو پڑھنے کے لئے دیا جاسکتا ہے۔ لیکن علم وہدایت اور کسی اخلاقی تعلیم وارشاد کی روشنی یہاں کہاں ملے گی۔ جب