لپیٹ دی ہو۔ اگر یہ تہذیب وشرافت ہے تو پھر لغت سے اس کا وہ مفہوم خارج کرنا ہوگا۔ جواب تک شرفاء کے ہاں سمجھا جاتا رہا۔ اس گندگی کی پوٹلی کو کھولنے کی ضرورت نہیں۔ نمونہ اوپر پیش کردیاگیا۔ کون ہے جو اس زبان پر فدانہ ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو گالیاں سکھانے کے لئے ہی نئی نبوت کا ظہور ہوا ہے۔ ملت اسلامیہ سے کٹنے کے بعد یہ شخص آخردم تک دینی فریضہ کی حیثیت سے دنیا کی سب سے بڑی ظالم اور مسلم کش حکومت کی جاسوسی کرتا رہا اور اس کے بدلے انگریزی وظائف وصول کرتا رہا۔ اس گھناؤنے کردار کے ساتھ ساتھ اس کا یہ بیہودہ اور ایمان سوز دعویٰ یہ بھی ہے۔ ’’من فرّق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۲۵۹، خزائن ج۱۶ ص۲۵۹)
ایسے ظالم نبی اور اس کی سازشی امت کو برداشت کرنے پر خدائی غضب کی بجلیاں نہیں چمکیں گی۔ خدا اور رسول کے خلاف بغاوت پھیلانے اور ان کے شان میں گستاخیاں کرنے والے ذلیل عناصر طاعونی چوہوں کی طرح وبا پھیلاتے رہیں اور خدا ورسول کی محبت کا دعویٰ کرنے والے مؤمن خاموش تماشا دیکھتے رہیں؟ اس کا نتیجہ ملی زندگی کے لئے عبرتناک ثابت ہوسکتا ہے۔
انگریزوں کا پروانۂ خوشنودی
مرزاقادیانی کے خاندان کا ایک ایک فرد جب بڑھ چڑھ کر انگریزی حکومت پر فدا ہونے لگا تو انگریز جیسی قدر شناس قوم نے سند قبولیت بخشا۔ ’’از رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور، تہور وشجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند، ازاں جاکہ مفسدہ ہندوستان مرقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت اور خیرخواہی سرکار دولت مدار انگلشیہ درباب نگہداشت سواراں وبہمرسانی اسپاں بخوبی منصہ ظہور پہنچے اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدل ہوا۔ خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔ لہٰذا بجلدوی اس خیرخواہی وخیرسگالی کے خلعت مبلغ دوصد روپیہ سرکار سے آپ کو عطاء ہوتا ہے اور حسب منشاء چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر ۵۷۶ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۸۵۸ء پروانہ ہذا باظہار خوشنودی سرکار ونیک نامی وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۹۰،۹۱، خزائن ج۶ ص۳۸۶،۳۸۷)
اپنے ہی پیش کردہ دعویٰ کے مطابق جھوٹا نبی
فاتح قادیان مولانا ثناء اﷲؒ کے خلاف مرزاقادیانی نے مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار شائع کیا۔ اس کی آخری سطر یہ ہے۔ ’’پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ یعنی طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں، آپ پر میری زندگی میں