ہے کہ آپ کی حرمت اور آپ کی تقدیس کے لئے اپنی جان بھی دینا پڑے گی تو دریغ نہیں کرے گا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۳۰ء ج۱۷ نمبر۸۰ ص۳)
لیکن خاتم النبیین کے ناموس کے تحفظ کے لئے ہاتھ اٹھانا گمراہی ہے
۱۹۲۹ء میں رنگیلا رسول لکھنے والے لاہور کے ایک ہندو کو جب ایک غیور مسلمان علم الدین نے قتل کر دیا تو خلیفہ محمود قادیانی نے یہ بیان دیا۔ ’’انبیاء کی عزت کی حفاظت، قانون شکنی کے ذریعہ نہیں ہوسکتی۔ عزت بچانے کے لئے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں۔ جس کے بچانے کے لئے دین تباہ کرنا پڑے۔ یہ سمجھنا کہ محمد رسول اﷲ کی عزت کے لئے قتل کرنا جائز ہے۔ سخت حماقت اور گمراہی ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۲۹ء ص۷ نمبر۸۲)
عیار اور بددیانت گروہ کے لینے کے پیمانے اور دینے کے اور ہوتے ہیں۔ جھوٹے نبی کے لئے جان لڑا دو۔ لیکن محبوب خدا حضرت خاتم النبیینﷺ کے خلاف زہر اگلنے والوں کو کھلی چھٹی ہے اور ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانا حماقت اور گمراہی ہے۔ کیا اپنے دعوے کے بعد پھر بھی یہ امت مسلمہ میں رہ سکتے ہیں۔ جب کہ اختلاف نبوت نے عقائد ونظریات ہی تبدیل کر دیئے اور وفاداری کے مرکز ہی بدل گئے۔ کیا حضورﷺ کی توہین گوارا کرنے والا کوئی مسلمان بھی ہوسکتا ہے؟
مذہب کے روپ میں خطرناک سیاسی پروگرام
’’اس وقت اسلام کی ترقی خدائے تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یعنی جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے۔‘‘ (الفضل ج۲۳ نمبر۲۹۹ ص۴، مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۳۶ئ)
فرقان بٹالین
اپنے سیاسی عزائم کو دنیا میں وسیع کرنے اور اپنے فرقہ کی حکومت قائم کرنے کے لئے ربوہ سیکرٹریٹ میں مرزائیوں نے ایک بٹالین قائم کی ہے۔ جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے۔ انکوائری رپورٹ کے جج صاحبان اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ان کے پاس رضاکاروں کا ایک جیش بھی ہے۔ جس کو خدام الاحمدیہ کہتے ہیں۔ فرقان بٹالین اس جیش میں سے ایک ہے اور یہ خالص احمدی بٹالین ہے۔‘‘ (انکوائری رپورٹ ص۲۱۱)
اب اس بٹالین کا مصرف مرزامحمود کے مذکورہ بیان کی روشنی میں سمجھنا کچھ مشکل نہیں