ہے کہ یہ ایک خالص سیاسی جماعت ہے جو مسلمانوں میں اختلاف نبوت کی بناء پر انتشار پیدا کر کے انگریز یہود کے ناپاک عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے معرض وجود میں آئی ہے اور اپنی طرز کی ریاست بنانے کے لئے اوّل روز سے بتدریج عملی مراحل طے کرتی چلی آرہی ہے اور اپنی جماعت کو اسی مقصد کے لئے تربیت دی جارہی ہے۔
مرزاناصر نے تخت خلافت سنبھالنے کے تین ماہ بعد یہ بیان دیا۔
’’ہمیں عظیم قربانیاں دینی ہوں گی۔ جب ہم اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیں گے۔ تب خدا کہے گا کہ میں اپنا سب کچھ کیوں بچا رکھوں۔ میں بھی اپنی سب برکتیں تمہیں دیتا ہوں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۶۷ئ)
’’اپنی جماعت کو آئندہ حالات کے لئے تیار کرنے کی مختلف سکیموں پر توجہ دلائی جاتی ہے۔ ہماری یہ پود صحیح رنگ میں تربیت حاصل کر کے وہ ذمہ داریاں نباہ سکے گی جو عنقریب ان کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں۔ کیونکہ میری توجہ کو اس طرف پھیرا گیا تھا کہ آئندہ پچیس سال اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے بڑے ہی اہم اور انقلابی ہیں اور اسلام کے غلبہ کے بڑے سامان اسی زمانہ میں پیدا کئے جائیں گے اور دنیا کثرت سے اسلام میں داخل ہوگی۔ اس وقت اس کثرت کے ساتھ ان میں مربی اور معلم چاہئیں اور معلم اور مربی جماعت کہاں سے لائے گی؟ اگر آج اس کی فکر نہ کی گئی۔ اس لئے ان کی فکر کرو۔ پہلے بڑوں کی تربیت کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے ذریعہ ان چھوٹوں کی تربیت کی جاسکے۔ جن پر بڑی اہم ذمہ داریاں عنقریب پڑنے والی ہیں۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍جون ۱۹۶۷ئ)
جن مقاصد کے لئے اپنی جماعت کو تیار کیا جارہا ہے۔ وہ ان بیانوں سے بخوبی واضح ہیں۔ ظاہر ہے کہ لادینی طاقتوں کے تعاون سے یہ جھوٹی نبوت کی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ سیاسی قوت کے ساتھ اپنے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے اور مخالف مسلمان طبقہ کا دفاع بھی اطمینان کے ساتھ کیا جائے۔ ان بیانات کی روشنی میں ایشیاء میں ابھرنے والی یہ نئی اسرائیلی ریاست مسلمانوں کی ملی اور ایمانی غیرت کو جس طرح چیلنج کر رہی ہے۔ اس کے بارے میں غفلت اور فرض ناشناسی کی بناء پر کسی سخت ترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اﷲتعالیٰ ہمیں آنے والے فتنہ سے بچائے اور حق وباطل میں صحیح قوت فیصلہ عطاء فرمائے اور اس امر کی توفیق بھی عطاء فرمائے کہ اسلام جس حفاظت اور سلامتی کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ہم اسے اسی احتیاط وحفاظت کے ساتھ آنے والی نسلوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکیں۔