الجہاد وسلط اﷲ علیکم ذلالا ینزعہ حتیٰ ترجعوا الیٰ دینکم (ابوداؤد کتاب الجہاد)‘‘ جہاد پر دنیوی کاروبار کو ترجیح دی گئی اور اپنے عقیدہ ومسلک کی حکومت قائم کرنے میں کوتاہی کی گئی تو پھر تم پر اﷲتعالیٰ ذلت (غلامی) مسلط کر دے گا۔ یہاں تک کہ تم پھر اس دینی فریضہ (جہاں) کی طرف رجوع نہ کرو۔
اس حدیث میں جہاد کو دین کہاگیا ہے۔ جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اسی دین ہی کے ذریعہ مسلمانوں کو عزت وفضیلت بھی بخشی گئی ہے۔
حضرت شاہ ولی اﷲؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’اعلم ان النبیﷺ بعث بالخلافۃ العامۃ ولغلبۃ دینہ علیٰ سائر الادیان لا یتحقق الا بالجہاد واعداد الایۃ فاذا ترکوا الجہاد واتبعوا اذناب البقر احاط بہم الذل وغلب علیہم اہل سائر الادیان‘‘ (حجتہ اﷲ البالغہ ج۲ ص۱۷۳)
اﷲتعالیٰ نے نبی کو خلافت عامہ اور تمام ادیان پر دین حق کو غالب کرنے کے لئے بھیجا ہے اور یہ کام جہاد اور اس کے لئے ضروری ساز وسامان اختیار کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پس جب لوگ جہاد ترک کر دیں گے اور دنیوی کاروبار میں منہمک ہو جائیں گے تو ذلت ان کا گھیراؤ کر لے گی اور غیرمذاہب کے لوگ ان پر غالب آجائیں گے۔
جہاد دوامی فریضہ ہے جسے کوئی منسوخ نہیں کر سکتا
آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’والجہاد ماض منذ بعثنی اﷲ الیٰ ان یقاتل آخر ہذہ الامۃ الدجال لایبطلہ جور جائرٍ ولا عدل عادل‘‘ (کتاب الجہاد ص۲۴۷)
اور جہاد میری بعثت سے لے کر قیامت تک جاری رہے گا۔ جب کہ اس امت کا آخری گروہ دجال سے جنگ کرے گا اور نہ کسی ظالم کا ظلم جہاد کو باطل کر سکتا ہے اور نہ کسی عادل امیر کا عدل یعنی جہاد اس عذر کی بناء پر بھی منسوخ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہم پر اس وقت جابر حکمران مسلط ہیں اور نہ اس بات کو بہانہ بنایا جاسکتا ہے کہ حکومت اگرچہ کفار کی ہے۔ مگر ہمیں امن نصیب ہے اور ہمارے ساتھ انصاف ہورہا ہے۔ جیساکہ مرزاقادیانی کے خاندان کو امن حاصل رہا اور نہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہے کہ اگر ان کے اپنے ملک میں عدل کا دور دورہ ہو تو وہ مطمئن ہوکر بیٹھ رہیں اور باہر کی دنیا میں جو ظلم وفساد برپا ہو۔ اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاد کتنا عالمگیر اجتماعی فریضہ ہے اور اس کی دوامی حیثیت کسی صورت بھی ختم نہیں ہوسکتی اور یہ کہ وہ مسلمانوں کو ہمہ وقتی اس کے لئے تیار اور مصروف دیکھنا چاہتا ہے۔