جب بھی نبی بننے کا دورہ پڑا ہے ان کا اور ان کے ماننے والوں کا سفینۂ حیات الفاظ ومعانی کے ہیرپھیر اور نبوت کے انکار واقرار کے بھنور میں ڈوب کر رہ گیا۔ وہ اپنی یادگار کے طور پر دنیا میں فکری انتشار، ذہنی پراگندگی اور باہمی تکفیر وتضلیل کی دھول چھوڑ گئے اور جب دنیا سے رخصت ہوئے تو لعنت وپھٹکار کی بوچھاڑ ان پر جاری تھی اور ہمیشہ کی ذلت ورسوائی ان کی زادراہ، مرزاقادیانی بھی اس منزل کے راہی ہیں اور اسی حشر سے دوچار۔
اب مرزاقادیانی اپنے بعد دوسروں پر نبوت کا دروازہ بند کرتے ہیں۔ جیسا کہ اجرائے نبوت کی کنجی انہیں کے ہاتھ میں آگئی ہے اور خاتم الانبیاء کا منصب بھی انہیں مل گیا ہے۔
۱… ’’آنحضرتﷺ کے بعد صرف ایک ہی نبی کا ہونا لازم ہے اور بہت سے انبیاء کا ہونا خدا کی بہت سے مصلحتوں میں رخنہ پیدا کرتا ہے۔‘‘ (تشحیذ الاذہان بابت ماہ اگست ۱۹۱۷ئ)
۲… ’’لا نبی بعدی اس امت میں صرف ایک نبی آسکتا ہے جو مسیح موعود غلام احمد قادیانی ہے اور کوئی قطعاً نہیں آسکتا۔‘‘ (تشحیذ الاذہان بابت ماہ مورچ ۱۹۱۴ئ)
یہ وحی اس لئے تراشی گئی کہ خود مرزاقادیانی کے زمانہ میں ہی ان کے بعض مزاج شناس پیروکاروں نے بھی ان کے چشمۂ نبوت سے فیض پانے کے بعد اور آپ کے ہاتھوں نبوت کا دروازہ کھلا دیکھ کر اپنی بیعت کا اعلان کر دیا تھا۔ صحبت نبی کے کمال نے انہیں بھی نبی بننے کے لئے تیار کر دیا۔ مثلاً آپ کے دور کے چند مدعیان نبوت یہ ہیں:
۱… مولوی یار محمد۔
۲… استاد محمود احمد۔
۳… احمد نور کابلی، جس نے اپنا کلمہ بھی یہ ایجاد کر لیا تھا۔ ’’لا الہ الا اﷲ احمد نور رسول اﷲ‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍نومبر ۱۹۳۴ئ، نمبر۵۸ ص۱۷)
۴… عبداللطیف گناچور ضلع جالندھر۔ (دعویٰ نبوت ۱۹۲۱ئ)
۵… چراغ دین جموی قادیانی۔ (۲۳؍مارچ ۱۹۰۲ئ)
مرزاقادیانی نے جل کر اسے اپنی امت سے خارج کر دیا۔
۶… غلام محمد لاہوری۔ (دعویٰ ۱۹۳۱ئ)
۷… مولوی عبداﷲ تیماپوری۔
۸… صدیق دیندار چن بسویشور۔ (۱۹۲۴ئ)۹… الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ لاہور۔