۴… ’’ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے قائل ہیں۔ آنحضرتﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں۔ بلکہ وحی ولایت جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجنابؐ اولیاء اﷲ کو ملتی ہے۔ اس کے ہم قائل ہیں۔ غرض نبوت کا دعویٰ رسالت ہی نہیں۔ صرف ولایت اور مجددیت کا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷،۲۹۸)
۵… ’’حضورﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کافر ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)
۶… ’’میں نے ہر گز نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ نہ میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)
۷… ’’میرے لئے یہ کہاں مناسب ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافر بن جاؤں۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
مقابلہ کے لئے پھر دہرا لیجئے! ان کے سابقہ دعویٰ کہ وہ اپنے پہلے دعوؤں کے مطابق خود کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ پہلی اور پچھلی وحی میں تصادم ہوگیا۔
۱… ’’سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
۲… ’’میں اس کا رسول ہوں۔ مگر بغیر کسی نئی شریعت کے اور نئے دعوے کے اور نئے نام کے بلکہ اس نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اسی میں ہوکر اور اسی کا مظہر بن کے آیا ہوں۔‘‘
(نزول المسیح ص۲،۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۰،۳۸۱)
۳… ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے بھیجا۔ اس نے میرا نام نبی رکھا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
۴… ’’یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۲۸)
۵… ’’میری گردن پر تلوار رکھ دی جائے۔ تم کہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ میں کہوں گا تو جھوٹا ہے۔ آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘
(انوار خلافت ص۶۵)
۶… ’’ہر شخص ترقی کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمد سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء نمبر۵ ج۱۰ ص۵)