دعوت جمیع ممالک وملل عالم کے لئے تھی۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ئ)
سچے مسلمانوں کو جو عقیدت ومحبت آنحضورﷺ سے ہے۔ اس میں شگاف ڈالنے کے لئے کتنے جتن کئے جارہے ہیں۔ کیا آپ کو خاتم النبیین اور رحمتہ للعالمین تسلیم کرنے کی یہی حقیقت ہے۔ مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے آپ کو خاتم النبیین بھی کہتے ہیں اور آپ کے تمام اعزازات چھین کر جھوٹی نبوت پر چسپاں بھی کرتے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی حضورﷺ کے پیروکاروں کے ساتھ قادیانیوں کا کوئی رشتہ باقی رہ جاتا ہے۔ جس کے لئے وہ امت مسلمہ میں گھسے رہنے کے لئے اصرار کر رہے ہیں؟
جمہور مسلمانوں کے خلاف مرزائیوں کا اعتقاد اور سماجی تصور
۱… ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔‘‘ (انوار صداقت ص۹۰)
۲… ’’اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو ان کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود کا منکر نہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا۔ غیراحمدی کابچہ بھی غیراحمدی ہوا۔ اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۳)
۳… ’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو۔ لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیراحمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا۔ خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قول نہ کی۔‘‘
(انوار اخلافت ص۹۳،۹۴)
۴… ’’حضرت مسیح موعود نے غیراحمدیوں کے ساتھ وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریمﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی رہ گیا جو ہم نے ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک دینی دوسرے دنیوی، دین کا تعلق سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے۔ دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔‘‘ (کلمتہ الفضل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ص۱۶۹)