ان کے والد نے مسلمان روساء کے خلاف ۱۸۵۷ء میں ۵۰گھوڑے خرید کر ۵۰جنگجو مہیا کر کے انگریزوں کی مدد کی تھی۔ (تحفہ قیصریہ ص۱۸، خزائن ج۱۲ ص۲۷۰ ملخص)
۱۸۸۲ء میں یہ دعویٰ کیا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوتا ہے۔ بلکہ مختلف کتابوں میں آغاز الہام کے مختلف سال ہیں۔
(بموجب تحفہ گولڑویہ ۱۸۶۰ئ، موجب اربعین ۱۸۶۵ء تا۱۸۹۴ء تک کے سال درج ہیں)
جو نبوت جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہو اس میں حافظہ ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا اور حافظہ کی کوتاہی جھوٹ کا ثبوت ہے۔ یا یہ اختلاف نبی بننے کی تیاری کے تحت حالات کے اتار چڑھاؤ کا نتیجہ ہوگا۔
۱۸۸۹ء میں مجدد وقت اور مامور من اﷲ کی حیثیت سے بیعت لینی شروع کر دی۔
(سیرت المہدی ج۱ ص۳۹، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳)
حالانکہ اسلامی شریعت میں کسی مجدد کے لئے ایسی بیعت لینی جائز نہیں کہ مجددیت کا دعویٰ اور مامور من اﷲ کی کوئی بنیاد قرآن وسنت میں نہیں ملتی۔ ۱۸۹۱ء میں مسیح علیہ السلام کی موت کا اعلان اور خود مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ جس سے مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔
(سیرت المہدی ج۱ ص۱۰۷)
۱۹۰۱ء میں نبوت کا اعلان کر دیا۔ اربعین کی تاریخ کے مطابق ۱۸۶۵ء سے ۱۹۰۱ء (یعنی ۳۶سال) تک الہام ہوتا رہا کہ تم نبی نہیں ہو۔ مجدد اور مسیح موعود (یعنی ماتحت نبی) ہو۔
۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں بمقام لاہور اپنے خسر میر ناصر نواب کے بقول ہیضہ کے ذریعہ وفات ہوئی۔
زندگی کے آخری ۵یاساڑھے پانچ سال نبوت کے اقرار اور اس سے پہلے ۳۶سال نبوت کے انکار کی الجھن میں گزرے۔ نبوت کے انکار واقرار کی وجہ سے خود مرزائیوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے۔ لاہوری اور قادیانی پہلا گروہ ۳۶سال کی وحی کو حجت مان کر اسے مجدد کہتا ہے۔ دوسرا گروہ ۳۶سال کے الہامات اور وحی کو منسوخ قرار دے کر آخری دعویٰ پر ایمان لاتا ہے۔
دعویٰ نبوت کے بعد خدا کی شاگردی
بچپن میں جو کچھ نامکمل ساعلم اساتذہ سے پڑھا تھا۔ وہ کالعدم ہوگیا۔ اب براہ راست اﷲ تعالیٰ سے علم حاصل کیا جاتا ہے۔ ’’سمیتک المتوکل وعلمنا من لدنا علماً‘‘ (ازالہ