اوہام ص۶۹۷، خزائن ج۳ ص۴۷۶) میں نے تیرا نام متوکل رکھا اور اپنی طرف سے علم سکھایا۔ مرزاقادیانی کے خدا کو عربی خطاب کا محاورہ بھی نہیں ہے۔ ’’سمیتک‘‘ میں کاف مرزاقادیانی کو خطاب کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ’’علمناک‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ’’ہ‘‘ کی ضمیر کسی اور ہی طرف موڑ دی گئی۔ بہرحال مرزاقادیانی کی عربی دانی حاضر دماغی، یا وحی کی زبان کے بارے میں تفصیلات کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آنحضورﷺ کی ایک صفت متوکل بھی بیان کی گئی ہے۔ خدا کا شاگرد بننے کا دعویٰ اور آپﷺ کی اس صفت کو چرا کر اپنے اوپر چسپاں کرنا، بددیانتی اور پاگل پن کی دلیل ہے۔ پھر اس کے بعد دجل وفریب کی کڑوی اور زہریلی گولی امت مسلمہ کے گلے سے یک دم اتارنے کے بجائے ۳۶سال میں تاویلات اور تحریفات کی کھانڈ چڑھانے میں صرف ہوگئے اور اس کے بعد وقفہ وقفہ سے قدم بڑھایا گیا۔ الہام، مہدی، مجدد، مسیح موعود تک کئی مدارج طے ہوئے۔ اس کے بعد نبوت ورسالت کا جھنڈا لہرا دیا اور پھر جوش مراق میں اﷲتعالیٰ کی خلعت عظمت وجلالت پر بھی ہاتھ ڈال دیا۔ ایک مسلمان کے لئے خدا اور رسول کا اعلان کافی ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو رسول اﷲﷺ کے ارشاد کے مطابق وہ کذاب اور دجال ہے اور مرتد ہونے کی حیثیت سے واجب القتل ہے۔ اسی پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ مسیلمہ کذاب کا قتل اس کا واضح ثبوت ہے اور فقہائے امت کے فیصلہ کے مطابق ایسے لوگوں کے نبوت کے دعوؤں کی جانچ پرکھ کرنا، عقیدہ ختم نبوت کو مجروح کرنا ہے۔ لیکن ایک جھوٹے شخص کو اس کے جھوٹے دعوؤں کے ساتھ پیش کرنا، اس وقت ضروری ہے جب کہ یہ بات ذہن نشین کرانا مقصود ہو کہ ختم نبوت کے عقیدے سے انحراف اور قصر نبوت میں نقب لگانے کے بعد ایک انسان کے عقل وہوش اس کے قول وکردار اس کی دیانت وامانت اور اس کے علم واخلاق کی کیا کیفیت ہوجاتی ہے۔ دعوؤں کے تضاد سے کس حقیقت کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت کے آئینہ میں ایسے لوگوں کی شکل وصورت کس رنگ میں نظر آتی ہے۔ لہٰذا دجالوں اور کذابوں کا حلیہ اپنے اپنے دعوؤں کی روشنی میں دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے ۳۶سالہ دور کے الہامات اور وحی کے سلسلہ پر بحث کی ضرورت نہیں۔ اس کے الہامات دعوؤں پیشین گوئیوں اور طرز کلام یا اندازوحی کو عقل وشرافت کی کسوٹی پر پرکھنے کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں صرف ان کے ادعائے نبوت کے دور سے بحث شروع کی جاتی ہے۔