ہے۔ جھوٹے نبی کے حلقہ بگوش سچے نبی کے پیروکاروں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ دونوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں رہتی۔ جیسا کہ آخر میں خود نبوت باطلہ کے دعوؤں کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ دونوں میں وہی فرق ہے جو اندھیرے اور روشنی میں یا کفر واسلام میں ہے ۔کوئی نیا نبی تسلیم کرنے کے بعد آنحضورﷺ آخری نبی، اسلام مکمل دین، …… اور یہ امت آخری امت نہیں کہلا سکتی۔ جھوٹی نبوت کے تسلیم کر لینے کے بعد تو اسلام کی تمام بنیادیں اکھاڑنی پڑیں گی۔ شرعی قدروں میں کانٹ چھانٹ ایمانیات میں تغیر وتبدل اور اسلامی معاشرے میں قطع وبرید کا بڑا وسیع سلسلہ چلانا پڑتا ہے۔ مرزاقادیانی اپنی ان تمام کوششوں کو بروئے کار لانے کے باوجود کامیاب نہ ہوسکے۔ ’’فلعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘آنحضورﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کافر ہے
’’ودعویٰ النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر باالاجماع‘‘ آنحضورﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ (شرح فقہ اکبر ص۲۰۲، ملا علی قاری)
موجودہ دور کے مدعی نبوت کے مختصر حالات، دعوے، کارنامے اور اس کا حقیقی مشن خود اس کی زبانی۔
مرزاغلام احمد قادیانی تحریک کا بانی ہے۔ اس کا والد مرزاغلام مرتضیٰ سکھ دربار میں ملازم تھا۔ مرزاغلام احمد قادیانی ۱۸۳۹ء میں ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں پیدا ہوا۔ اس کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اردو، فارسی، عربی پڑھ سکتا تھا۔ ۱۸۶۴ء میں کلرک کی حیثیت سے ڈسٹرکٹ کورٹ سیالکوٹ میں ملازم ہوا۔ چار سال تک ملازمت کرنے کے بعد پھر چھوڑ دی۔ اپنی تعلیم کے بارے میں اس نے لکھا ہے۔
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھاگیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں۔ اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ جب میری عمر دس برس کے قریب تھی۔ ایک عربی دان معلم میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے… ان سے میں نے صرف ونحو حاصل کی۔ جب میں اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا… جن سے میں نے منطق وحکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۶۱تا۱۶۳، خزائن ج۱۳ ص۱۷۹تا۱۸۱ حاشیہ)