ارضہ وخلیفۃ رسولہ وخلیفۃ کتابہ‘‘ (الجامع لاحکام القرآن ج۴ ص۷۴)
حضورﷺ نے فرمایا۔ جو شخص معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے وہ خدا کی زمین میں خدا کا نائب ہے۔ اس کے رسول کا نائب ہے۔ اس کی کتاب کا نائب ہے۔
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں: ’’تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر مدح لہٰذہ الامۃ ما اقاموا ذالک واتصفوا بہ‘‘ (الجامع الاحکام القرآن ج۴ ص۱۲۳)
خداتعالیٰ کا یہ فرمانا کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو۔ اس امت کی تعریف ہے۔ جب تک کہ وہ اس عملی صفت پر قائم ہے اور یہ صفت اس کے اندر پائی جاتی ہے۔ یہ شرف وفضیلت محض اس کے اس عمل سے ہے جو انبیاء کرام کے عمل سے مشابہ ہے۔ قرآن وحدیث کی مذکورہ تشریح سے ثابت ہوا کہ امت محمدی آخری امت ہے۔ اس کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔
اس کی ڈیوٹی وہی مقرر کی گئی ہے جو سابقہ انبیاء کرام کی تھی۔ بذاتہ خیر اور دوسروں کے لئے داعی الیٰ الخیر، امر بالمعروف ونہی عن المنکر امت خیر کا تاج۔ خود اﷲتعالیٰ نے اس کے سرپر رکھا اور یہ اس امت کے لئے مخصوص ہے۔ شر کی پوری کائنات کے لئے یہ امت قیامت تک چیلنج بن کر رہے گی۔ اب تجدید واصلاح کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس امت کے علمائ، فقہا اور محدثین اپنے اصلاحی اور علمی کارناموں کے ساتھ قوم کی بہترین قیادت وامارت سرانجام دیں گے۔ چہرۂ اسلام سے ہر دور کے بگڑے ہوئے انسانوں کی اڑائی ہوئی دھول دھپہ صاف کریں گے۔ ہر قسم کی خلاف اسلام سازشوں اور جھوٹی نبوتوں کے تاروپود بکھیرتے رہیں گے۔ ہر دور میں اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ نظام جاہلیت کا مقابلہ کر کے شمع اسلام کو روشن رکھیں گے۔ ہر نئی نبوت اور نئی امت کا محاسبہ کرتے رہیں گے اور پوری امت مسلمہ اس فریضہ، ادائیگی میں عند اﷲ جوابدہ ہوگی۔
نئی نبوت امت مسلمہ کی توہین ہے
اس افضل امت کے بعد اب کسی مفضول امت کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟ افضل نبی اور کامل رسول کے بعد کسی ماتحت نبی کا آنا آخر کس مصرف کا رہ جاتا ہے۔ نیا نبی کھڑا کرنا افضل امت کی سخت توہین ہے اور اس کی تمام خوبیوں کو چھین کر اسے نااہل قرار دینا ہے۔ اسے روشنی سے نکال کر پھر اندھیروں کے حوالے کر دینا ہے۔ نئی نبوت کی مثال ایسی ہے۔ جیسے زمزم کی موجودگی میں پیاسا گندے جوہڑوں سے اپنی پیاس بجھائے۔