یہ دنیا عجائب گاہ اضداد ہے
یہاں نور کے مقابلہ میں اندھیرا، صحت کے مقابلہ میں بیماری، تعمیر کے ساتھ تخریب، خوشی کے ساتھ درد ورنج، نفع کے ساتھ نقصان، سچ کے مقابلہ میں جھوٹ کا سلسلہ اوّل روز سے چلا آرہا ہے۔ اس طرح روحانیت کے سلسلہ میں، ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی، ملائکہ کے مقابلہ میں شیاطین، انبیاء کے مقابلہ میں کذابوںاور دجالوں کی کش مکش بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ ’’وکذالک جعلنا لکل نبی عدواً من المجرمین (فرقان:۳)‘‘ {ہم نے تو اس طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔}
خاتم الرسل کے دور میں خاتم الدجاجلہ کا ظہور مقدر ہوا۔ جب کہ اس سے پہلے آپﷺ کی پیش گوئی کے مطابق کئی جھوٹے اور دجال نبوت کے دعوے لے کر اٹھیں گے۔
’’قال رسول اﷲﷺ ان اﷲ لم یبعث نبیاً الا حذر امتہ الدجال وانا اٰخر الانبیاء وانتم اٰخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ (ابن ماجہ ص۲۹۷، باب الدجال)‘‘ {آپﷺ نے فرمایا اﷲتعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا۔ جس نے اپنی امت کو دجال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو۔ مگر ان کے زمانہ میں وہ نہ آیا۔ اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ لا محالہ اب وہ تمہارے دور ہی میں آئے گا۔} ’’قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (مسلم، ابوداؤد، ترمذی ج۲ ص۴۵)‘‘ {رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ آئندہ میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک بزعم خود نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ حالانکہ میں سب نبیوں کے آخر میں آیا ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
اس حدیث میں تشریعی یا غیرتشریعی، ظلی اور بروزی ہر قسم کی نبوت کی نفی کر دی گئی ہے اور اس کے بعد ہر مدعی نبوت کو دجال اور کذاب کا خطاب دیاگیا ہے۔ اس کے بعد نبوت کی جو بھی قسم برآمد کی جائے گی وہ دجل وفریب، فریب اور افتراء وکذب تصور کی جائے گی۔
’’قال رسول اﷲﷺ لا تقوم الساعۃ حتیٰ یخرج ثلاثون کذاباً دجالاً منہم المسیلمۃ والعنسی والمختار (ابویعلی ج۶ ص۴۵، حدیث نمبر ۶۷۸۶، فتح الباری)‘‘