نام اسلام نہیں ہے۔ ایک متوازن نظام دونوں کی یکساں رعایت سے قائم ہوتا ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی اضطراب ہے۔ بے اطمینانی اور بدامنی یا فساد ہے۔ وہ انہیں دو شعبوں میں افراط وتفریط کا نتیجہ ہے اور اسلامی نظام جب اپنی مکمل صورت میں جس دور اور جس خطہ میں بھی قائم ہوگا۔ تو وہاں کوئی جعل ساز، جھوٹی نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ دین وایمان اور توحید ورسالت کے رہزن تو جھاڑ جھنکار کی طرح وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں امت مسلمہ اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے میں سست پڑ جائے اور اس کی مرکزی قوت میں اضمحلال پیدا ہو جائے۔ قدیم ترین مفسر ابن جریر طبری نے مذکورہ آیت کی تفسیر اس طرح فرمائی۔ ’’ولتکن منکم ایہا المؤمنون امۃ یقول جماعۃ یدعون الناس الیٰ الخیر یعنی الیٰ الاسلام وسراعیہ التی شرعہا اﷲ لعبادہ (جامع البیان فی تفسیر القرآن ج۴ ص۳۸)‘‘ {اے اہل ایمان تم میں ایک ایسی امت، جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے۔} خیر کا مطلب ہے اسلام اور اس کی شریعت جسے اﷲ نے اپنے بندوں کے لئے جاری کیا۔
اسے خیر امت کا خطاب اسی لئے ملا ہے کہ وہ شر سے بھری ہوئی دنیا کے لئے اپنے اخلاق، اعمال اور اپنی اصلاح وتبلیغ کے ذریعہ خیر ثابت ہوگی۔ خود بھی خدا کی کامل فرمانبردار ہوگی اور دوسروں کو بھی دعوت وتبلیغ کے ذریعہ مکمل اسلام کی فرمانروائی کے لئے تیار کرے گی۔ خدا کے دین کو پوری زندگی (انفرادی، سیاسی اور اجتماعی زندگی) میں نافذ کرنے کی جدوجہد کرے گی۔ اسی کام کی وجہ سے اس میں پیغمبرانہ شان پیدا ہوتی ہے اور جس میں یہ شان پیدا ہو جائے خدا کی اس زمین پر اس سے بہتر کوئی امت نہیں۔
علامہ صاویؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہذہ الامۃ لہا شبہ باالانبیاء من حیث انہا مہتدیۃ فی نفسہا ہادیۃ لغیرہا (جلالین ج۱ ص۱۵۶)‘‘ اس امت کو انبیاء سے گونہ مشابہت ہے۔ اس طرح کہ وہ خود بھی ہدایت یافتہ ہے اور دوسروں کو بھی ہدایت ورہنمائی دیتی ہے۔ یعنی عابد وزاہد بھی ہے ور ہادی ورہنما بھی، اپنی اصلاح کے بعد دوسروں کی تکمیل نفس میں مصروف رہتی ہے۔ اس کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی امت کے فرائض میں رکھاگیا ہے۔ دین کو اپنی صحیح حالت پر رکھنا اور اسے دنیا میں تمام نظاموں پر غالب کرنے کی تمام کوششیں صرف کر ڈالنا اس کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔
’’قال النبی من امر بالمعروف ونہی عن المنکر فہو خلیفۃ اﷲ فی