نسبت حاصل ہو۔ جو حضرت موسیٰ سے ہارون علیہ السلام کو تھی۔ مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد نبوت باقی نہیں ہے۔} جہاں کہیں ذرہ بھر بھی نبوت کے دروازے کھلنے کا احتمال ہوسکتا تھا۔ تشریعی ہو یا غیرتشریعی، رضائے الٰہی کا نمائندہ گمراہ کرنے والوں کے لئے آخری حد تک کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ قرابت اور برادری کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ لیکن نبوت، انتخاب مالک اور عطائے رحمن ہے۔ اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے۔
خاتم الامم کے بعد کوئی نئی امت نہیں آئے گی اﷲتعالیٰ نے اس امت کی تعریف اور اس کے فرض منصبی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا۔
۱… ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر (آل عمران:۱۲)‘‘ {تم ایک بہترین امت ہو جو تمام لوگوں کو دعوت حق پہنچانے اور ان کی اصلاح کے لئے مقرر کی گئی ہو۔ معروف کا حکم دو گے اور منکرات سے روکو گے۔}
۲… ’’ولتکن منکم امۃ یدعون الیٰ الخیر ویأمرون بالمعروف وینہون عن المنکر واولئک ہم المفلحون (آل عمران:۱۱)‘‘ {اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے اور یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔} یہی وہ مقصد عطیم ہے جس کے لئے انسانی کتابوں کا نزول ہوا۔ انبیاء مبعوث ہوئے۔
چنانچہ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر الذی انزل اﷲ بہ کتبہ وارسل بہ رسلہ من الدین (الحسبۃ فی الاسلام ص۶۳)‘‘ اﷲتعالیٰ نے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کے ساتھ اپنی کتابیں نازل کیں۔ اپنے رسول بھیجے یہ دین ہی کا ایک جزو ہے۔
علامہ رشید رضاء مصری لکھتے ہیں: ’’قد جرت سنۃ الانبیاء والمرسلین والسلف الصالحین علی الدعوۃ الی الخیر والامر بالمعروف والنہی عن المنکر وان کان محفوظاً بالمکارہ والمخاون (تفسیر المنار ج۴ ص۳۲)‘‘ انبیاء ومرسلین اور سلف صالحین کی یہ سنت رہی ہے کہ انہوں نے خیر کی دعوت دی۔ معروف کا حکم دیا اور منکر سے منع کیا۔ اگرچہ یہ کام مشقتوں اور تکالیف میں گھرا ہوا ہے۔