وقدوس کی قسم اور حضرت نبی کریمﷺ کا واسطہ دے کر یقین دلانے کی کوشش کی ہے اور اس کو اپنے صدق وکذب کا معیار بھی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے۔ اﷲتعالیٰ کے الہام اور وحی سے کہا ہے۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان اتنا واضح اور مشرح ہے کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ مرزائیو! بتاؤ کہ مرزاقادیانی کی بیان کردہ تقدیر مبرم کہاں گئی اور اس کے بخییٔ کیوں ادھڑ گئے؟ اور جو صدق وکذب کا معیار بحوالۂ وحی الٰہی قرار دیا گیا تھا۔ اس کی رو سے مرزا قادیانی کاذب ثابت ہوا یا نہیں؟ نکاح آسمانی کے متعلق مرزاقادیانی کی مستقل مزاجی اور امید بھی تعریف ہے۔ مرزاقادیانی نے ۱۸۸۸ء سے لے کر ۱۹۰۷ء تک کا طویل عرصہ بڑے ہی صبرو امید اور یقین کامل کے ساتھ گزارا ہے۔ خدا تواتر سے الہامات نازل کر رہاتھا کہ نکاح ہوگا اور ضرور ہوگا۔ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ خدا کی باتیں ٹلا نہیں کرتیں۔ تیرا خدا تمام موانعات دور کرے گا۔ یعنی مرزاسلطان محمد ضرور مر جائے گا اور محمدی بیگم بیوہ ہوکر تیرے نکاح میں آئے گی۔ لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بالآخر ۱۹۰۷ء میں مرزاقادیانی اس نکاح سے کچھ مایوس سا ہوگیا۔ کیونکہ دن بدن اس کی جسمانی حالت انحطاط کی طرف جارہی تھی اور قوت باہ کا وہ نسخہ جو فرشتے نے اسے بتایا تھا اور جس کے کھانے سے پچاس مردوں کی قوت اس میں پیدا ہوگئی تھی۔ غالباً اس کا اثر بھی زائل ہوچکا تھا۔ ادھر رقیب خوش نصیب کی زندگی تھی کہ ختم ہی نہیں ہورہی تھی۔ ان سب قرائن سے اندازہ کر کے یہ اعلان کر دیا۔
’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ یہ درست ہے۔ مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا۔ خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی۔ جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ’’یا ایتہا المراۃ توبی توبی فان البلاء علیٰ عقبک‘‘ ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۲،۱۳۳، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
مرزاقادیانی نے اس دورنگی چال کے اختیار کرنے میں اس دل جلے عاشق کی اتباع کی ہے۔ جس نے اپنے معشوق سے التجاء کی تھی کہ ؎
مجھ کو محروم نہ کر وصل سے او شوخ مزاج
بات وہ کہہ کہ نکلتے رہیں پہلو دونوں
حقیقت الوحی کی یہ عبارت بھی اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ مرزامحمدی بیگم کے نکاح