سے کلیتہً مایوس نہیں ہوا تھا۔ ایک طرف تو ظاہری قرائن کو دیکھتے ہوئے تمام امیدیں حسرت ویاس میں بدل چکی تھیں اور دوسری طرف دل کی تڑپ ڈھارس بندھائے جاتی تھی کہ شاید اگر عمر نے وفا کی تو گوہر مقصود (محمدی بیگم) ہاتھ لگ ہی جائے۔ اس لئے دو دلی میں یہ الفاظ لکھ دئیے کہ نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔ غرضیکہ مرزاقادیانی کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محمدی بیگم کے نکاح کی جھلک نظر آتی رہی۔
کیا مرزاقادیانی کی یہ دیرینہ اور الہامی تمنا پوری ہوگئی؟ اس کا جواب بڑی حسرت اور افسوس سے نفی میں دیا جاتا ہے کہ تاحیات مرزاقادیانی کا نکاح محمدی بیگم سے نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو حسرت نکاح اور بستر عیش اپنے ساتھ قبر میں لے گیا۔ اب مرزاقادیانی کی قبر سے گویا آواز آرہی ہے ؎
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی کرشن قادیانی مرزاغلام احمد قادیانی کے چیلے اپنے گورو کا آخری فتویٰ بھی ملاحظہ کر لیں۔
مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’سو چاہئے تھا کہ ہمارے نادان مخالف انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی سے اپنی بدگوئی ظاہر نہ کرتے۔ بھلا جس وقت یہ ساری باتیں پوری ہو جائیں گی تو اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیں گے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو جائیں گے۔ ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہ رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے چہروں کو بندروں اور سورؤں کی طرح کر دیں گے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۲، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مرزائیو! سن لیا تمہارا جے سنگھ بہادر کیا کہہ گیا کہ اس پیش گوئی کے خاتمہ پر ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہ رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سورؤں کی طرح کر دیں گے۔ لیکن ایسا کن کے حق میں ہوگا۔ فیصلہ جن کے خلاف ہوگا۔ پھر ہوا کیا۔ یہ مولوی محمد علی امیر جماعت مرزائیہ لاہور سے سن لو۔ تاکہ تمہیں شبہ نہ رہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ سچ ہے کہ مرزاقادیانی نے کہا تھا کہ نکاح ہوگا اور یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہوا۔‘‘ (اخبار پیغام صلح مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۲۱ئ)