مرزاقادیانی مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو اگلے جہاں کی طرف لڑھک گیا اور مرزا سلطان محمد اپریل ۱۹۳۲ء تک زندہ ہے۔
مرزاقادیانی نے ۱۸۸۸ء میں بقول خود اﷲتعالیٰ سے خبرپاکر اور اس کی اجازت سے محمدی بیگم کے نکاح کا اشتہار دیا۔ اس کے بعد اس آسمانی نکاح کے متعلق مرزاقادیانی پر بارش کی طرح تابڑ توڑ الہامات برستے رہے۔ جن کا تھوڑا سا نمونہ گزشتہ صفحات میں پیش کیاگیا ہے۔ ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی کے دل میں یہ کامل یقین تھا کہ محمدی بیگم اس کے نکاح میں ضرور آئے گی۔ یہاں تک کہ جون ۱۹۰۵ء تک بھی مرزاقادیانی اس نکاح سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ اسی امید نے مرزاقادیانی کو یہ کہنے پر مجبور کیا۔
’’اور وعدہ یہ ہے کہ پھر وہ نکاح کے تعلق سے واپس آئے گی۔ سو ایسا ہی ہوگا۔‘‘
(اخبار الحکم مورخہ ۳۰؍جون ۱۹۰۵ء ص۲ کالم۲)
حوالہ جات سابقہ کے علاوہ مرزاقادیانی کا ایک فیصلہ کن حوالہ نقل کیاجاتا ہے۔ جس میں مرزاقادیانی اس پیش گوئی کو تقدیر مبرم قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’باز شمارا ایں نگفتہ ام کہ ایں مقدمہ برہمیں قدر باتمام رسیدہ نتیجہ آخری ہماں است کہ بظہور آمد حقیقت پیش گوئی برہماں ختم شد۔ بلکہ اصل امر برحال خود قائم است وہیچکس باحیلہ خود اور رانتواند کرد وایں تقدیر از خدائے بزرگ تقدیر مبرم است وعنقریب وقت آں خواہد آمد پس قسم آں خدائے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ را برائے مامبعوث فرمود اور ابہترین مخلوقات گردانید کہ ایں حق است وعنقریب خواہی دید ومن ایں را برائے صدق خود یا کذب خود معیارمی گردانم ومن نگفتم الابعد زانکہ از رب خود خبردادہ شدم۔‘‘ پھر میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ یہ جھگڑا یہیں ختم ہوگیا اور نتیجہ یہی تھا جو ظاہر ہوگیا اور پیش گوئی کی حقیقت اس پر ختم ہوگئی۔ بلکہ یہ امر اپنے حال پر قائم ہے اور کوئی شخص حیلہ کے ساتھ خود اس کو رد نہیں کر سکتا اور یہ تقدیر خدائے بزرگ کی جانب سے تقدیر مبرم ہے۔ عنقریب اس کا وقت آئے گا۔ پس اس خدا کی قسم جس نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو ہمارے لئے مبعوث فرمایا اور آپؐ کو تمام مخلوقات سے بہتر بتایا کہ یہ سچ ہے کہ عنقریب دیکھے گا اور میں اس کو اپنے صدق وکذب کے لئے معیار قرار دیتا ہوں اور میں نے یہ اپنے رب سے خبر پاکر کہا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
مندرجہ بالا عبارت میں مرزاقادیانی نے کس صراحت سے محمدی بیگم کے خاوند کے مرنے اور اس کے ساتھ اپنا نکاح ہونے کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور اس کی صداقت پر خدائے واحد