ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔ ……………
۴… ’’اس عاجز نے ایک دینی خصومت پیش آجانے سے اپنے ایک قریبی مرزااحمد بیگ ولد گاماں بیگ ہوشیار پور کی دختر کی نسبت بحکم والہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خدا کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آوے۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۲؍مئی ۱۸۹۱ئ، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹)
۵… ’’میری اس پیش گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعوے ہیں:
اوّل… نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔
دوم… نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔
سوم… پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔
چہارم… اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مرجانا۔
پنجم… اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں۔ اس لڑکی کا زندہ رہنا۔
ششم… پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے
میرے نکاح میں آجانا۔ اب آپ ایماناً کہیں کہ یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچے ہو جانے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۶… ’’وہ پیش گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں:
۱…
کہ مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔
۲…اور پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔
۳…
اور پھر یہ کہ مرزااحمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔
۴…
اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔
۵…
اور پھر یہ کہ یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔
۶…
اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے۔
اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۶۵، خزائن ج۶ ص۳۷۶)