مرزاقادیانی نے اپنے اس آسمانی نکاح کے متعلق جو الہامات اور تحریریں شائع کیں۔ ان کے ضروری اقتباسات درج ہیں۔
۳… ’’عرصہ قریباً تین برس کا ہوا ہے کہ بعض تحریکات کی وجہ سے جن کا مفصل ذکر اشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء میں درج ہے۔ خداتعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزااحمد بیگ ولد مرزاگاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن آخرکار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خداتعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ چنانچہ اس پیش گوئی کا مفصل بیان مع اس کی میعاد خاص اور اس کے اوقات مقرر شدہ کے اور مع اس کے ان تمام لوازم کے جنہوں نے انسان کی طاقت سے اس کو باہر کر دیا۔ اشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اور وہ اشتہار عام طبع ہوکر شائع ہو چکا ہے۔ جس کی نسبت آریوں کے بعض منصف مزاج لوگوں نے بھی شہادت دی۔ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے تو بلاشبہ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے اور یہ پیش گوئی ایک سخت مخالف قوم کے مقابل پر ہے۔ جنہوں نے گویا دشمنی اور عناد کی تلواریں کھینچی ہوئی ہیں اور ہر ایک کو جوان کے حال سے خبرہوگی۔ وہ اس پیش گوئی کی عظمت خوب سمجھتا ہوگا۔ ہم نے اس پیش گوئی کو اس جگہ مفصل نہیں لکھا تاکہ باربار کسی کے متعلق پیش گوئی کی دل شکنی نہ ہو۔ لیکن جو شخص اشتہار پڑھے گا وہ گو کیسا ہی متعصب ہوگا اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ مضمون اس پیش گوئی کا انسان کی قدرت سے بالا تر ہے اور اس بات کا جواب بھی کامل اور مسکت طور پر اسی اشتہار پر سے ملے گا کہ خداوند تعالیٰ نے کیوں یہ پیش گوئی بیان فرمائی اور اس میں کیا مصالح ہیں اور کیوں اور کس دلیل سے یہ انسان طاقتوں سے بلند تر ہے۔ اب اس جگہ مطلب یہ ہے کہ جب یہ پیش گوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ (جیسا کہ اب تک بھی جو ۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ء ہے۔ پوری نہیں ہوئی) تو اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا پیش گوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہو رہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیش گوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا۔ ’’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘‘ یعنی بات تیرے رب کی طرف سے سچ