مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’ہمارے نبی ہونے کے وہی نشانات ہیں جو تورات میں مذکور ہیں۔ میں کوئی نیا نبی نہیں ہوں۔ پہلے بھی کئی نبی گزرے ہیں جنہیں تم لوگ سچے مانتے ہو۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۱۰ ص۲۱۷)
’’ایسا رسول ہونے سے انکارکیاگیا ہے جو صاحب کتاب ہو۔ دیکھو جو امور سماوی ہوتے ہیں ان کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئے اور کسی قسم کا خوف کرنا اہل حق کا قاعدہ نہیں۔ صحابہ کرامؓ کے طرز عمل پر نظر کرو۔ وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ ان کا عقیدہ تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے۔ جبھی ’’ولایخافون لومۃ لائم‘‘ کے مصداق ہوئے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔ دراصل یہ نزاع لفظی ہے۔ خداتعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے جو بلحاظ کمیت وکیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیش گوئیاں بھی کثرت سے ہوں۔ اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے۔ ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ صرف خدا کی طرف سے پیش گوئیاں کرتے تھے۔ جن سے موسوی دین کی شوکت وصداقت کا اظہار ہو۔ پس وہ نبی کہلائے۔ یہی حال اس سلسلہ میں ہے۔ بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کون سا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے۔ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے۔ یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کے دین کو جو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ ان میں کوئی نبی نہیں ہوتا۔ اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھہرے۔ کس لئے اس کو دوسرے دینوں سے بڑھ کر کہتے ہیں… ہم پر کئی سالوں سے وحی نازل ہورہی ہے اور اﷲتعالیٰ کے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں۔ اسی لئے ہم نبی ہیں۔ امر حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ رکھنا چاہئے۔‘‘
(ڈائری مرزاقادیانی مندرجہ اخبار بدر قادیان مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷،۱۲۸)
’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک کہ اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘
(مرزاقادیانی کا آخری مکتوب مندرجہ اخبار عام مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ئ)