لعنت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
ان حوالہ جات سے ثابت ہورہا ہے کہ مرزاقادیانی کثرت مکالمہ ومخاطبہ اور کثرت اطلاع امور غیبیہ کو نبوت سمجھتا تھا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا تھا۔ ’’یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی۔ اگر کوئی منکر ہوتو بارثبوت اس کی گردن پر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
اس عبارت سے ثابت ہوا کہ تیرہ سو سال میں جتنا مکالمہ مخاطبہ مرزاقادیانی سے ہوا ہے۔ کسی اور سے نہیں ہوا اور کثرت مکالمہ ومخاطبہ نبوت ہوتی ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی نبی ہے۔
لاہوری مرزائی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہر نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت اور کتاب لائے۔ نیز دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ لیکن ان کا یہ کہہ دینا اپنے گورو کی تصریحات کے صریحاً خلاف ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’یہ تمام بدقسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کیاگیا۔ نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبرپانے والا ہو اور شرف مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۸، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
’’بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی۔ بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے۔ تاکہ ان کے موجودہ زمانے میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں۔ پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۴۴، خزائن ج۶ ص۳۴۰)
’’نبی کا شارع ہونا شرط نہیں۔ یہ صرف موہبت ہے۔ جس سے امور غیبیہ کھلتے ہیں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
یہ تینوں حوالہ جات پکار پکار کر اعلان کر رہے ہیں کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ یہ تھا کہ بغیر نئی کتاب وشریعت کے بھی نبی ہوسکتا ہے اور نبی ہونے کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔
مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’اس امت میں آنحضرتﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۳۰)