قارئین کرام
ان الہامات میں عجیب وغریب دعاوی اور نام مرزا کی طرف منسوب کئے گئے ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ فرد واحد اتنے ناموں اور عہدوں کا مصداق کس کس طرح ہوسکتا ہے۔ کیا کوئی مرزائی ایسا بھی ہے جو اپنے گورو کی ان بھول بھلیوں کو حل کرے؟ مرزاقادیانی نے خود بھی کئی جگہ لکھا ہے اور مرزائی بھی اسی لکیر کے فقیر ہیں کہ حدیث میں مسیح ناصری اور مسیح موعود کے دو علیحدہ علیحدہ حلئے موجود ہیں۔ اس لئے مسیح ناصری ان دو حلیوں کا مصداق نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ خود مرزاقادیانی کے ڈھانچے میں محمد، احمد، عیسیٰ، موسیٰ، ابراہیم، کرشن، برہمن، اوتار، جے سنگھ بہادر وغیرہ وغیرہ مختلف ہستیاں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں؟
مرزااپنا الہام بیان کرتے ہوئے: ’’یحمدک اﷲ من عرشہ یحمدک اﷲ ویمشی الیک‘‘ خدا عرش پر سے تیری حمد کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔
(انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص۵۵)
مرزاقادیانی نے یہ نہیں بتایا کہ خداتعالیٰ مرزاقادیانی کے پاس پہنچا بھی تھا یا نہیں؟ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے ان الفاظ سے مخاطب کیا ہے۔ ’’انت اسمی الاعلے‘‘ اے مرزا تو میرا سب سے بڑا نام ہے۔ (البشریٰ ج۲ ص۶۱)
واہ کرشن قادیانی یہاں تو تو نے غضب ہی کر دیا۔ یہ الہام شائع کرتے وقت اتنا نہ سوچا کہ عیسائی اور آریہ سماجی کیا کہیں گے کہ مرزاقادیانی کی پیدائش سے پہلے مسلمانوں کو خدا کا اعلیٰ نام تک معلوم نہ تھا اور قرآن وحدیث خداوند کریم کے اعلیٰ اور ذاتی نام سے بالکل خالی تھے۔ مرزاقادیانی کے اس نئے اور اچھوتے انکشاف سے پتہ چلا کہ خداتعالیٰ کا سب سے بڑا نام غلام احمد ہے۔
مرزاقادیانی کا ایک الہام ’’انت مدینۃ العلم‘‘ اے مرزا تو علم کا شہر ہے۔
(البشریٰ ج۲ ص۶۱)
ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا: ’’انا مدینۃ العلم وعلّی بابہا‘‘ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔ مگر قادیانی کرشن کہتا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں۔
مرزائیو! سچ سچ کہنا کہ تم حدیث شریف کو سچا جانتے ہو یا اپنے کرشن قادیانی کے الہام کو؟ مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’انی ہمیٰ الرحمن‘‘ میں خدا کی باڑھ ہوں۔ (البشریٰ ج۲ ص۸۹)
مرزاغلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ میں خدا کی باڑھ ہوں۔ زمیندار کھیت کے گرد جو باڑھ