نہایت رقت کا عالم تھا۔ اس خیال سے کہ کس قدر خداتعالیٰ کا میرے پر فضل اور کرم ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا بلاتوقف اﷲتعالیٰ نے اس پر دستخط کردئیے اور اسی وقت میری آنکھ کھل گئی اور اس وقت میاں عبداﷲ سنوری مسجد کے حجرے میں میرے پیرد بارہا تھا کہ اس کے روبرو غیب سے سرخی کے قطرے میرے کرتے اور اس کی ٹوپی پر بھی گرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سرخی کے قطرے گرنے اور قلم جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا۔ ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا۔ ایک غیرآدمی اس راز کو نہیں سمجھے گا اور شک کرے گا۔ کیونکہ اس کو صرف ایک خواب کا معاملہ محسوس ہوگا۔ مگر جس کو روحانی امور کا علم ہو۔ وہ اس میں شک نہیں کر سکتا۔ اسی طرح خدانیست سے ہست کر سکتا ہے۔ غرض میں نے یہ سارا قصہ میاں عبداﷲ کو سناتا اور اس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عبداﷲ جو ایک روایت کا گواہ ہے۔ اس پر بہت اثر ہوا اور اس نے میرا کرتہ بطور تبرک اپنے پاس رکھ لیا۔ جواب تک اس کے پاس موجود ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۵۵، خزائن ج۲۲ ص۲۶۷)
مرزائیو! قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ’’لیس کمثلہ شیٔ‘‘ کہ اﷲتعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ خدائے واحد کی ذات عالی تشبیہات سے منزہ ہے۔ لیکن تمہارا مرزاقادیانی قرآن حکیم کے اس محکم اصول کے خلاف لکھ گیا ہے کہ ایک دفعہ تمثلی طور پر مجھے خداوند تعالیٰ کی زیارت ہوئی۔ خوف خدا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تم ہی بتادو کہ بے مثل کا تمثل کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور غیرمحدود کا تمثل محدود ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جواب دیتے وقت بے پر کی مت اڑانا اور اگر ہمت ہے تو قرآن کریم کی کوئی آیت نقل کرنا جس سے تمثیلی طور پر خدا کی زیارت کا ثبوت مل سکے۔ مرزاقادیانی کے اسی کشف کے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ اپنی پیش گوئیوں کی تصدیق کے لئے جو کاغذات مرزاقادیانی نے خداتعالیٰ کے سامنے پیش کئے اور اﷲتعالیٰ نے سرخی کے قلم سے ان پر دستخط کر دئیے۔ جب سرخ رنگ مادی اور حقیقی تھا۔ تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ کاغذات بھی مادی ہی ہوںگے۔ تب مرزائی بتائیں کہ وہ کاغذ کہاں ہیں اور اﷲتعالیٰ نے کس زبان کے حروف میں دستخط کئے تھے؟ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ پیش گوئیاں کس کس کے متعلق تھیں؟ اور باوجود اﷲتعالیٰ کی بارگاہ سے تصدیق ہو جانے کے وہ پوری ہوئیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ ارادۂ الٰہی سے قلم پر زیادہ رنگ آگیا تھا یا خدا کے ارادے کے بغیر ہی قلم نے زیادہ رنگ اٹھالیا؟
مرزاقادیانی دجال کہتا ہے: ’’میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی عدالت میں ہوں۔ میں منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہے۔ اتنے میں جواب ملا ’’اصبر سنفرغ یا مرزا‘‘ کہ اے مرزا صبر کر ہم عنقریب فارغ ہوتے ہیں۔ پھر میں ایک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ میں