مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ مگر حسینؓ پس تم دشت کربلا کو یاد کر لو۔ اب تک روتے ہو پس سوچ لو۔
’’انی قتیل الحب لکن حسینکم قتیل العدٰی فالفرق اجلے واظہر‘‘ میں محبت کا کشتہ ہوں۔ مگر تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔ پس فرق بیّن وظاہر ہے۔
(اعجاز احمدی ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳)
قارئین کرام! مرزاملعون کن مکروہ الفاظ اور متکبرانہ انداز میں امام حسینؓ سے افضلیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے ایثار عظیم الشان قربانی اور شہادت عظمیٰ کی تعریف میں دنیا کی تمام غیرمسلم اقوام تک رطب اللسان ہیں۔ کربلا کے معرکہ حق وباطل میں حضرت امام حسینؓ نے جس عزم، جرأت، صبرواستقلال اور بہادری کا اعلیٰ ترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ وہ آپ ہی اپنی نظیر ہے۔ اس عظیم الشان شہادت کے سامنے مرزائے قادیانی ملعون کو پیش کرنا آفتاب کے سامنے چمگادڑ کو لانا ہے۔
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
کہاں حضرت امام حسینؓ کا ایثار، صبر واستقامت حق اور کہاں مرزا کی بزدلی کہ ایک معمولی مجسٹریٹ کی چشم نمائی پر فوراً لکھ دیا کہ میں کسی مخالف کے متعلق موت وعذاب وغیرہ کی اندازی پیش گوئی اس کی اجازت کے بغیر شائع نہ کروں گا۔ اتنا ڈرپوک اور بزدل ہونے کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ سو حسینؓ میری جیب میں ہیں۔ انتہائی کذب آفرینی نہیں تو اور کیا ہے؟
یہاں پر مرزاقادیانی کے چیلوں (مرزائیوں سے) ایک سوال ہے کہ تمہارے مرزاقادیانی نے جو کہا ہے کہ ’’انی قتیل الحب‘‘ تو مرزاقادیانی کس کی محبت کا کشتہ تھا؟ جواب دیتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کہیں محمدی بیگم کا نام نہ لے لینا۔ کیونکہ مرزاقادیانی تو اسی کی محبت کا کشتہ تھا اور مرتے ہوئے بھی حسرت نکاح دل میں ہی گئی۔ مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’ما انا الّا کالقراٰں وسیظہر علی یدی ما ظہر من الفرقان‘‘ میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا۔ جو کچھ کہ قرآن سے ظاہر ہوا۔ (تذکرہ ص۶۷۴)
دوسری جگہ لکھتا ہے ؎
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دانمش زخطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاہا ہمین است ایمانم