آن یقینے کہ بود عیسیٰ را
برکلامے کہ شد بر اوالقا
وآں یقین کلیم بر تورات
وآں یقیں ہائے سید السادات
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
جو کچھ میں وحی خدا سے سنتا ہوں۔ خدا کی قسم اسے خطاء سے پاک سمجھتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ میری وحی قرآن کی طرح تمام غلطیوں سے مبرّٰا ہے۔ وہ یقین جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کلام پر تھا جو ان پر نازل ہوا۔ وہ یقین جو حضرت موسیٰ کو تورات پر تھا۔ وہ یقین جو سید المرسلین حضرت محمد مصطفیﷺ کو قرآن پر تھا۔ وہی یقین مجھے اپنی وحی پر ہے۔ اس یقین میں میں کسی نبی سے کم نہیں ہوں۔ جو جھوٹ کہتا ہے وہ لعین ہے۔ اسی باطل عقیدے کا دوسری جگہ یوں مظاہرہ کیا۔
’’یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا۔ یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے۔ ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲) قرآن مجید ایسی کتاب ہے کہ عرب جنہیں اپنی زبان دانی اور فصاحت وبلاغت پر بڑا ہی فخروناز تھا۔ باوجود اہل زبان ہونے کے وہ بھی اس پاک کتاب کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان کا قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی شاعر کوئی قصیدیا اشعار لکھتا تو اسے خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکا دیا جاتا۔ وہ قصیدہ اس وقت تک وہاں لٹکتا رہتا جب تک کہ کوئی دوسرا نیا لکھ کر نہ لاتا۔ پھر ان دونوں کا الفاظی اور مفہومی لحاظ سے موازنہ کیا جاتا۔ جس کے الفاظ اور جس کا مفہوم بہتر ہوتا۔ اسے وہاں پر لٹکا دیا جاتا۔ جب قرآن پاک کی سورۃ کوثر ’’انا اعطینک الکوثر‘‘ نازل ہوئی تو نبیﷺ کے فرمان کے مطابق حضرت عثمانؓ نے اسے خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکایا۔ تمام اہل عرب اس کا مطلب، مقصد، مدعا اور مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر کوئی بھی اس کا عقدہ حل نہ کر سکا۔ بالآخر شام سے ایک پادری کو جب کتب سماویہ کا عالم ہونے کے علاوہ عربی لغت کا بھی واقف تھا، بلایا گیا۔ اس نے اسے دیکھنے اور موازنہ کرنے کے بعد اس کے نیچے لکھ دیا۔ ’’واﷲ ما ہذا کلام