علیہ السلام کو مردہ خیال کرتے ہیں اور ان کی قبر کبھی ملک شام گلیل میں اور کبھی کشمیر سرینگر میں بتاتے ہیں اور نعوذ باﷲ ثم نعوذ باﷲ مرزاغلام احمد علیہ ماعلیہ کو سرکار دوعالمﷺ (فداہ ابی وامی) سے بڑھ چڑھ کر یقین کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس کتاب کے مطالعہ سے ہر شخص معلوم کر سکتا ہے۔ ہمارا اور قادیانیوں کا کوئی جزوی یا معمولی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک اصولی بنیادی اختلاف ہے۔ جنت اور دوزخ کا اختلاف ہے۔ ایمان وکفر کا اختلاف ہے۔ قادیانی دنیا کے نوے کروڑ مسلمانوں کو دوزخی اور کافر سمجھتے ہیں اور مسلمان بھی اس مٹھی بھر قادیانی امت کو دوزخی اور کافر سمجھتے ہیں۔
علاوہ ان اصولی اختلاف کے اور بھی سینکڑوں اختلاف اہل اسلام اور قادیانیوں میں ہیں۔ ان میں کچھ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ہم اس کتاب میں پیش کرتے ہیں۔ تاکہ بھولے بھالے اور اسلام سے بے خبر مسلمانوں پر دن کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جائے کہ قادیانیوں کے ظاہری اسلامی غلاف کو اصل دین اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ؎
چراغ مردہ کجا صبح آفتاب کجا
ببیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا
’’قادیانی قرآن‘‘ کے حوالوں کی طرح اس کتاب کے ہر حوالے کے لئے بھی ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر کوئی قادیانی یا ان کا کوئی پنڈت یہ ثابت کر دے کہ اس کتاب کا فلاں حوالہ غلط ہے یا اس کا ترجمہ غلط کیاگیا ہے یا اصل عبارت میں ایسی کتربیونت کی گئی ہے۔ جس سے اصل معنی بدل گئے ہیں تو ہم اس کے فی حوالہ دس روپے دینے کو تیار ہیں۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ کوئی قادیانی اس کی جرأت نہیں کر سکتا اور نہ کرے گا۔ یوں گھر بیٹھ کر اپنی جماعت میں شیخی بگھارنی اور بات ہے ؎
بنما بصاحب نظرے گوہر خودرا
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرچند
احقر: سید محمد اسماعیل عفی عنہ
(نوٹ) یہ کتاب آج سے تقریباً چالیس سال قبل شائع ہوئی تھی۔ مگر نایاب ہوگئی تھی۔ چونکہ اس وقت قادیانی فتنہ پھر سے سانس لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لئے اس کو دوبارہ مجلس علمیہ آندھراپردیش نے شائع کیا ہے۔ مجلس علمیہ آندھراپردیش علماء کرام کی مؤقر جماعت ہے۔ یہ جماعت اور اس کے ارکان علماء ردقادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے عظیم اور مبارک کام میں مصروف ہیں۔ اﷲتعالیٰ اس کی مساعی کو قبول فرمائے۔ آمین!