فتنۂ دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔
اس مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لئے اﷲتعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصلی مسیح کو نازل فرمائے گا۔ جسے دو ہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا کر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ہوگی۔ کیونکہ یہی مقام اس وقت عین محاذ جنگ پر ہوگا۔ دمشق اسرائیل کی سرحد سے بمشکل ۵۰،۶۰میل کے فاصلے پر ہے۔ پہلے جو احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان کے مضمون کے مطابق مسیح دجال ۷۰ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا۔ ٹھیک اس نازک موقع پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام صبحدم نازل ہوں گے اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کو اس کے مقابلے پر لے کر نکلیں گے۔ ان کے حملے سے دجال پسپا ہوکر افیق کی گھاٹی سے (حدیث نمبر۲۱ میں جس کا ذکر ہے) اسرائیل کی طرف پلٹے گا اور وہ اس کا تعاقب کریں گے۔ آخرکار لد کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ ان کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔
اس کے بعد یہودی چن چن کر قتل کئے جائیں گے اور ملت یہود کا خاتمہ ہو جائے گا۔ عیسائیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اظہار حقیقت ہو جانے کے بعد ختم ہو جائے گی اور تمام ملتیں ایک ہی ملت مسلمہ میں ضم ہو جائیں گی۔ یہ ہے وہ حقیقت جو کسی اشتباہ کے بغیر احادیث میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے بعد اس امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ مسیح موعود کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایا گیا ہے وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
اس جعل سازی کا سب سے مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے خود عیسیٰ ابن مریم بننے کے لئے یہ دلچسپ تاویل فرمائی ہے۔ ’’اس نے (یعنی اﷲتعالیٰ نے) براہین احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی۔ پھر مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے۔ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰ملخص)