سلطنت قائم کر دے۔ لیکن ان کی ان توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام خدا کی طرف سے مسیح ہوکر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے ان کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ہلاک کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود کے منتظر ہیں۔ جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں۔ ان کا لٹریچر اس آنے والے دور کے سہانے خوابوں سے بھرا پڑا ہے۔ طلمود اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی وسیاسی لیڈر ہوگا۔ جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں) انہیں واپس دلائے گا اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لاکر اس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔
اب اگر کوئی شخص مشرق وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبیﷺ کی پیشین گوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اس دجال اکبر کے ظہور کے لئے اسٹیج بالکل تیار ہوچکا ہے۔ جو حضورﷺ کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کئے جاچکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھچ کھچ کر چلے آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنادیا ہے۔ یہودی سرمائے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنسدان اور ماہرین فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جارہے ہیں اور اس کی یہ طاقت گردوپیش کی مسلمان قوموں کے لئے ایک خطرۂ عظیم بن گئی ہے۔ اس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اس تمنا کو کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی میراث کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک مدت سے کھلم کھلا شائع کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پورا شام، پورا لبنان، پورا اردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ٹرکی سے اسکندرون، مصر سے سینا اور ڈیلٹا کا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز ونجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں۔ جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اس موقع پر دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا۔ جس کے ظہور کی خبر دینے ہی پر نبیﷺ نے اکتفا نہیں فرمایا ہے۔ بلکہ یہ بھی بتادیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہوگا۔ اسی بناء پر آپ